تری طرف سے کوئی بھی پیام آیا نہیں
دعا تو دور ہے اب تک سلام آیا نہیں
مجھے تو تجھ پہ یقیں تھا بھرے زمانے میں
مگر یہ دکھ ہے مرے تو بھی کام آیا نہیں
اجڑ گئے ہیں ترے بعد حسرتوں کے محل
کوئی بھی شمع جلانے غلام آیا نہیں
اسے تو سوچا مکمل تھا ہر گھڑی میں نے
وہ آدھا حصے میں آیا تمام آیا نہیں
کسی کے عشق کا ایسا نشہ چڑھا مجھ پر
کہ عقل و ذہن میں کوئی کلام آیا نہیں
تمام عمر سفر میں گزر گئی وشمہ
چلی تھی جس کے لیے وہ مقام آیا نہیں