اپنے ہاتھوں سے اک دیا جلایا تم نے
کیا ہوئی بات خود ہی بجھایا تم نے
آئے تھے زیست کو تم مری روشن کرنے
اپنی بخشی ہوئی ظلمت کو بڑھایا تم نے
جو بھی کہنی ہے کہو بات لبوں سے اپنے
رقیبوں کی کہی بات کو بڑھایا تم نے
کیوں نہی ہوتے اب سیر مجھے رُسوا کر کے
وحشتوں کو مِری کِس قدر بڑھایا تم نے
غلطیاں اپنی وہ ساری دھر کے مجھ پہ
اور پھر اک حشر اُٹھایا تم نے
ک۔س سے لڑتے کِس کِس کو دیتے جواب
مقابِل سارے زمانے کو لا بٹھایا تم نے
میں سچ بھی کہتا کیا کہتا کِس سے
سبھی کہتے تھے وہی بات جو کہلوایا تم نے