دعوٰی تو دیکھ کیا کرتا ہے
شکل دیکھ شرم سے ڈوب کیوں نہ مرتا ہے
زندگی میں تیری کتنی سنتیں نہیں
پھر بھی یہ کہتا ہے محبت کرتا ہے
سچے عاشقوں کو کہنے کی حاجت نہیں ہوتی
انہیں دیکھ کے غلام ہونے کو دل کرتا ہے
ان کی زندگی کا اک اک پہلو
نبی کی سنت ہے ان پہ مرتا ہے
ان کا انداز ہی الگ ہے نرالا ہے
ساری دنیا کو ٹھوکر پہ مارا ہے
ہوتے ہیں دنیا میں پر دل نہیں ہوتا
دل تو یار پہ قربان کر ڈالا ہے
کرتے ہیں روز اپنی خواہشوں کا خون
اپنی جنونیت پہ ناز ان کو ہوتا ہے
سچی بات ایسی ہی کڑوی ہوتی ہے
ان کا جینے کا مقصد ہی جدا ہوتا ہے
دور سے آئیں تو پہچان لوں کامران
ان کی ہر ادا میں نبی کا فرمان ہوتا ہے