دھرتی کی پکار
دشمن دیس کی دھرتی کے
ہر روز قیامت ڈھاتے ہیں
پر سوۓ رہتے ہیں پل پل
یہ مورکھ پریم کی بستی کے
حق اپنا کب مانگیں گے ؟
کب گہری نیند سے جاگیں گے ؟
کس سوچ میں گُم سم بیٹھے ہیں؟
یہ کیسے ماں کے بیٹے ہیں؟
تڑپ تڑپ کر جینا ہے
چھلنی چھلنی سینہ ہے
زہر غموں کا پینا ہے
کلی کلی مرجھائی ہے
انسان پہ تنگ خدائی ہے
اب بات زباں پر آئی ہے
کیوں ظلم برابر سہتے ہیں؟
یہ کیسے ماں کے بیٹے ہیں؟
مجھے دنیا میں بدنام کیا
اور جب چاہا آرام کیا
یہ کام بھی کوئی کام کیا؟
ہر جانے والے کو گالی
اور آتے کو پرنام کیا
سب ہوتا دیکھتے ہیں لیکن
بس موج رواں میں بہتے ہیں
یہ کیسے ماں کے بیٹے ہیں؟