دیکھا تھا سرمژگاں اک ستارہ کوئی
لایا تھا وہ چاند کا موھوم سہارا کوئی
رات جب چاندنی میں اس کی یاد آئی
نہ رھا ھجر میں تنہائی کا شائبہ کوئی
متاع وفا کے پھول چن کے رکھ لیے
پھر شاخ نازک پہ بنایا گھونسلا کوئی
جیت میں مگر ھارنے میں بھی لزت ھے
مسکرا دیا تھا گر جل گیا آشیانہ کوئی
اندھیری رات میں اک ستارہ روشن ھے
حسن ھو گاوہ بھی تیری یاد میں متوالا کوئی