رخ جو پھیرا آپ نے ہم شہر بدر ہو گئے
اذیت کے تھے چار دن سو بسر ہو گئے
رو لئے ہم جتنا ہم کو رونا تھا
آنسو بھی ہمارے اب تو پتھر ہو گئے
مدھم پڑ گئی ہے چراغوں کی لو
یہ پروانے کیوں شمع کے سر ہو گئے
کون تڑپے اب لیلی کی چشم تر کے لئے
مجنوں تو حالات کی نذر ہو گئے
پھر سے ہو آباد ویرانہ دل کیسے
نوحہ کناں میری تنہائی پہ شجر ہو گئے
ابھی تو ابتدائے عشق تھی واجد
اور ابھی سے غم تیرا مقدر ہو گئے