طوفاں رہے یا آندھی ماتھے پہ نہ شکن ہو
حالات ہی میں جمنا اس کی بھی اب لگن ہو
روحانیت سے ملتی قوت ہی آدمی کو
اس کی طلب میں رہنا ایسی ہی اب تو دھن ہو
پھولوں کی صحبتوں میں جینا تو ٹھیک ہی ہے
کانٹوں کی ہو رعا یت اس کا بھی اب چلن ہو
اب تو چراغ روشن کرتے رہیں گے ہرسو
ظلمت رہے نہ باقی اس کی ہی اب کڑھن ہو
انداز ہم سبھی کا ہوجائے مشفقانہ
جو دل کو جیت لے ہی ایسا بھی اب سخن ہو
گرتے کو تھام لینا مشکل میں ساتھ دینا
بتلانا راہ سیدھی یہ ہی تو اب مشن ہو
الفت رہے دلوں میں نفرت سے دل ہو خالی
شکوہ نہ ہی شکایت ایسا ہی اب چمن ہو
ایسا نہ ہوعمل بھی ہوجائیں ہی اکارت
اخلاص ہو عمل میں اس پہ ہی گامزن ہو
یہ اثر سے تو پوچھو حسرت ہی اس کی کیا ہے
کینہ نہ ہو کسی کا ایسا ہی اس کا من ہو