بہت بے چین رہتے ہیں بہت بے تاب رہتے ہیں
بہت الجھے سے آج کل میرے خواب رہتے ہیں
عشق کی وادی میں رکھ دیا قدم جب سے
مسلط ذات پر میری ہر پل ہی عذاب رہتے ہیں
خواہش کی دلدل میں جو گِرا پھر نہیں اُبھرا
دل اس میں برباد صدا، حالات خراب رہتے ہیں
وہ تمام سوالوں کو اپنے کر کے چل دیا یوں ہی
ہم اِتنا بھی نہ کہہ پائے، ہمارے جواب رہتے ہیں
بہت پارسا لوگوں میں کنولؔ کیوں آن بیٹھی تم
کیا کچھ اب بھی باقی تمہارے ثواب رہتے ہیں