لہُو ٹپکا رہا ہے مرہمِ زخمِ جگر کرنا
اگر مل جائے کچھ سبزہ تو کچھ سبزہ ادھر کرنا
گُھٹن کی دم گُسِل چادر کو اوڑھے کب تلک دم لُوں
کہیں دیکھو ہوا تازہ! مجھے اُس کی خبر کرنا
مجھے تو رُوحِ سیلانی ہمیشہ مضطرِب رکھے
خلاؤں میں سفر کرنا کبھی پانی میں گھر کرنا
اگر ہر سمت اندھیاروں کے موسِم رقص کرتے ہوں
چراغِ فکر کو سورج بنا لینا سحَر کرنا
زمیں کے راستوں کے بند دروازے نہ ، وا ہوں تو
مِرے ہمراہ اُڑنا اور ، سرِ افلاک در کرنا
مثالِ روشنی ہر گام میرا ساتھ دینا ہے
یہاں سے خُلد تک منزل بہ منزل ہمسفر کرنا
کبھی مایُوسیاں عاشی نہ کرنا سوچ پر طاری
ہمیشہ فکر کے ہر زاویے کو خوش نظر کرنا