مجھے وہ لاکھ تڑپاۓ
مگر اَس شخص کی خاطر
میرے دل کے اندھیروں میں
دعاۂیں رقص کرتی ہیں
اَسے کہنا کہ لوٹ آۓ
سگلتی شام سے پہلے
کسی کی خشک آنکھوں میں
صداۂیں رقص کرتی ہیں
خدا جانے کیسی خوشی ہے
اَس کی یادوں میں مسعود
میں اَس کا ذکر چھیڑوں تو
ہوائیں رقص کرتی ہیں