نہ ہو کوئی بات پِھر بھی بات کِیا کرے کوئی
تاحیات خُوشی کی سوغات دِیا کرے کوئی
آ کر زِندگی میں پھر کیوں تنہا کرے کوئی
ایسے میں کیسے بتاؤ بھلا جِیا کرے کوئی؟
تنہا تنہا راتوں میں اگرچہ خیال سُنہرے ہوں
ایسے خیالوں سے کیونکر ڈرا کرے کوئی
موج در موج دریا کی پُر جوش روانی میں
راہ خود بن جائے موسیٰ جیسی دُعا کرے کوئی
بن جائے حصہؑ تاریخ پِھر نہ کوئی مِٹا سکے
داستانِ محبت میں ایسی وفا کرے کوئی
اہشکستہ ہے دل کوئی تو طبیب کو بلاؤ
زیرِ عِلاج ہے دل کُچھ تو دوا کرے کوئی
بےمعنیٰ سی گُزار دی زیست عدم بن کر
کِس حٙیا سے اب خُدا کو سجدہ کرے کوئی
اِس دُنیا میں صبر و شُکر سے ہمنے بسر کر لی
یہی وقت ہے اب اجل کو صدا کرے کوئی
چند سانسیں ہیں دی ہوئی اُسی کی ہیں
حق تو یہ ہے اسی کا حق ادا کرے کوئی
خود بھی میسر نہیں خود کو ہم عبّدُل
کبھی تو کوئی ہمارا بھی ہُوا کرے کوئی..