وصل کا امکان باقی ہے
Poet: نعمان صدیقی By: Noman Baqi Siddiqi, Karachiکبھی منظر نہیں دیکھا
مرے اندر نہیں دیکھا
لو اب کھل کر بتا ڈالا
تمہیں سب کچھ سنا ڈالا
تمہارے لوٹ جا نے کا
بہت سامان باقی ہے
ابھی امکان باقی ہے
کی زمین میں اسی
کا جواب
اب سن لو ذرا میری بھی
تم نے تو سُنا ڈالا
مُجھے تو تم نے جیتے جی
دیوار میں چُنا ڈالا
تمہاری اس مسکان پر تو
جان ہم چھڑکتے ہیں
رگیں تو پھڑکتی ہیں
خود ہم بھی تو پھڑکتے ہیں
جو حال ہمارا ہوتا ہے
دھمال ہمارا ہوتا ہے
کئ اس میں لُڑکتے ہیں
سب کے دل دھڑکتے ہیں
جو بھی تم جیسے بھی ہو
اب تم بس ہمارے ہو
غم کے جس کنارے ہو
ہمارے تم سہارے ہو
امکان لوٹ جانے کا
دل کے ٹوٹ جانے کا
تمہارے روٹھ جانے کا
ساتھ چھوٹ جانے کا
ممکن نہیں بس میں نہیں
یہ میری دسترس میں نہیں
نہیں امکاں لوٹ جانے کا
وقت ہے یہ لوٹ آنے کا
کشتیاں اب جلا دی ہیں
عشق کا امتحان باقی ہے
وصل کا امکان باقی ہے
میرا نام نعمان باقی ہے
وہ بہن بھی تو زمانے میں ہے اب نبھاتی ہیں
ماں کی الفت کا کوئی بھی نہیں ہے اب بدل
پر بہن بھی تو محبت میں ہے ایثار نبھاتی ہیں
گھر کے آنگن میں جو پھیلے ہیں یہ الفت کے ضیا
یہ بہن ہی تو ہیں جو گھر میں یہ انوار نبھاتی ہیں
ماں کے جانے کے بعد گھر جو ہے اک اجڑا سا نگر
وہ بہن ہی تو ہیں جو گھر کو ہے گلزار نبھاتی ہیں
دکھ میں بھائی کے جو ہوتی ہیں ہمیشہ ہی شریک
وہ بہن ہی تو ہیں جو الفت میں ہے غمخوار نبھاتی ہیں
ماں کی صورت ہی نظر آتی ہے بہنوں میں ہمیں
جب وہ الفت سے ہمیں پیار سے سرشار نبھاتی ہیں
مظہرؔ ان بہنوں کی عظمت کا قصیدہ کیا لکھیں
یہ تو دنیا میں محبت کا ہی وقار نبھاتی ہیں
زماں میں قدر دے اردو زباں کو تو
زباں سیکھے تو انگریزی بھولے ا پنی
عیاں میں قدر دے اُردو زباں کو تو
تو سیکھ دوسری ضرورت تک ہو ایسے کہ
مہاں میں قدر دے اُردو زباں کو تو
زباں غیر کی ہے کیوں اہمیت بتا مجھ کو
سماں میں قدر دے اُردو زباں کو تو
سنہرے لفظ اس کے خوب بناوٹ بھی
زماں میں قدر دے اُردو زباں کو تو
بھولے کیوں خاکؔ طیبؔ ہم زباں ا پنی
جہاں میں قدر دے اُردو ز باں کو تو






