وقت رخصت اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا
جیسے وہ رات بھر نہ سوئی ہو
ساری رات بےچینی میں روتے گزری ہو
اب بھی آنسو اسکی پلکوں پہ ٹھہرے ہوئے تھے
میرے اندر کا موسم بھی کچھ ایسا ہی تھا
جدائی کا تصور ہی جان لیوا تھا
لیکن پھر بھی میں اسے تسلی دے رہا تھا
اور وہ
ساکت و جامد خاموش کھڑی
ایک ٹک
میری جانب دیکھے جا رہی تھی
اتنے میں
گاڑی نے وسل کیا
میں ہاتھ ہلایا
جانے کیلئے پلٹا
تب
پہلی بار
اس نے کانپتے ہونٹوں سے
صرف اتنا کہا
واپس کب آو گے