رنگ بدل رہے ہیں کام اور شغل کے
زمانہ ہے بڑا نازک چلنا ذرا سنبھل کے
ایک کوی رستہ لینا تو پڑے گا
تنگ آگیا ہوں رستے بدل بدل کے
قال کا ہے منظر حال کا نہ پوچھو
ڈھنگ مختلف ہیں قول اور عمل کے
مسکرا دیے تھے بات اس کی سن کے
لشکر تھے جو گزرے نزد وادی نمل کے
آس پاس گدلا تم رہو بس اچھے
پانی میں جو دیکھے پھول وہ کنول کے
سُنے نہ بھی کوئی رہو تم گنگناتے
دِکھتے ہو تم نعمان آدمی غزل کے