سورج کے ڈھلتے ہوئے اک انجان سے پہر
میں چلا جاتا ہوں میں اک شام پُر خطر
طویل راہ ہے، آتی نہیں کوئی شے نظر
سناٹا یہ لگتا کسی طوفان کی ہے خبر
ڈھونڈتی ہے نگاہ مری کہ مل جائے کوئی خضر
ہاتھ تھام لے اور لے جائے یوں مجھے بے ضرر
دل کے کسی کونے سے صدائے پریشان ہے مگر
سنبھالوں جو زادِ راہ تو جان کی لگتی ہے فکر
جس طوفان کا تھا ڈر وہ آ ہی گیا آ خر
لٹ گیا اسباب مرا اب جاؤں کس کے مندر
ظلمت کے اندھیرے میں کاٹ کوئی گیا میرے پر
جو خواب تھے سب ٹوٹ گئے کروں کیا بَین ان پر
شگفتہ پھول ہوں کانٹوں بھری دنیا سے ہے ڈر
مہنگی ہے خوشی یاں اور سستا سا ہے جبر