کل رات یوں گزری کہ جیسے آتش دل کو قرار آ جائے
جیسے نسیم صبع کے جھونکوں سےگلوں کو خمار آ جائے
جیسے کوہءدامن میں فرط طرب سے اک پرندہ چہکے
جیسے گلشن میں اک بلبل کے بچے کواچانک زبان طیور آ جائے
جیسے اونٹوں کو تپتے ھوئے صحراؤں میں
بے وجہ سکون کا احساس شعور آ جائے
دیار الفت میں یاد جاناں کے لیے تڑپتا دل پر سکون ھو ایسے
جیسے سخت گرمی میں بارش کی ھلکی سی پھوار آ جائے
دل کے سمندر میں انکی تصویر ڈوب گئی ھو ایسے
جیسے سمندر کے کنارے بیٹھے ھوئے پانی کی لہر آ جائے
ملاقات کے لیے انکی آمد کا یقین ھو ایسے
جیسے باغوں میں درختوں پر پکا ھوا ثمر آ جائے
حسن جی چاھتا ھے انکے ساتھ خراماں خراماں ایسے چلوں
جیسے جنت کے باغوں میں حوروں کے ساتھ سفر آ جائے