کوئی خواب کوئی خیال دے گیا ھے مجھے
اب کی بار وہ کئی سوال دے گیا ھے مجھے
اس کے بخشے ھوئے خواب دن کو بھی آئے
یہ کرشمے اس کا وصال دے گیا ھے مجھے
دیکھ کر نرگس و لالہ کے بکھرےھوئے گیسو
میں نے شعر مانگا وہ غزل دے گیاھے مجھے
میں نےتو اپنے سخن میں اک داستان وفا کہی
وہ تڑپنے کیلیئےیاد شام زوال دےگیاھے مجھے
میں نے تو چاند ستاروں کے ملن کی تمنا کی تھی
وہ یادوں کی بہار فصل گل دےگیاھے مجھے
ھم نے رستوں میں رھزنوں سےقافلے لٹتے دیکھے
کارواں سےاک فقیر نشان منزل دےگیاھے مجھے
حسن ھوائے طرب ھماری قسمت کہاں نصیب کہاں
موسم کا کرب کہیںرنج کہیں ملال دےگیاھے مجھے