جب بھی خوشی ملی شریک غم ملی
ہر طبیب سے ہم کو مرہم کم ملی
زبوں حالی بہت ھے دل فرنگی میں
حالت نمو میں بھی خشک سالی ملی
ہم نے توڑی جب تہزیب کی تندی
گلے کا ہار بن کر ہر مصیبت ملی
اتحادو متحدہ، سخن ور چاہے ناشر
مغرب سے چلی ہر ہوا مسلم کُش چلی
تیری عبادت و ریاضت ھے سکونت قلب
تیری ملت کی ضرورت مردانگی قاسم وغزنوی
یوں تو اپنی ہی ذات میں مگن ہے میم
ملت کے حالات سے بے خبر کم رہی