خون میں ڈوبی ہوئی دسمبر کی سحر یاد ہے ہم کو
وہ رنج و غم وہ سوگ میں ڈوبا وطن یاد ہے ہم کو
یاد ہو تم معصوم شہیدو تمہیں ہم بھولے نہیں ہے
برس ایک ہے بیتا مگر وہ منظر سب یاد ہیں ہم کو
لہو لہو تھا چمن سارا اور پھول مرجھائے ہوئے تھے
ماؤں کی آنکھوں میں آنسوؤ وہ آہ و بکا یاد ہے ہم کو
کتابیں بکھری پڑی تھیں لاشوں کے درمیاں
ان اوراق پر تمھارا وہ مقدس لہو یاد ہے ہم کو
غم سے نڈھال ہر آنکھ تھی اشکبار اہل وطن کی
وہ پھولوں کے اٹھتے ہوئےجنازے یاد ہیں ہم کو
علم کے خزانے جو بانٹ رہی تھی درس گاہ میں
اس مادر شہدا کی ہمت و جراَت یاد ہے ہم کو
سلام اے ارض وطن کے معصوم شہیدو
ہم نہ بھولیں ہیں نہ بھولیں گے کبھی تم کو