Poetries by Sobiya Anmol
یوں نہ کبھی محبت میں عداوت ہوتی یوں نہ کبھی محبت میں عداوت ہوتی
کاش ایسی نہ میری قسمت ہوتی
محبت ہی میں رہ کر جیتی رہتی مَیں
محبت ہی سدا میری عبادت ہوتی
شرارتیں نہ اُس کی دل میں اُتری ہوتیں
تو کبھی نہ شروع یہ قیامت ہوتی
حوصلے محبت کے سدا ہوتے ہی رہتے
اندوہ و رنج ٗٗٗٗٗٗٗٗ الم کی گر یہ عنایت نہ ہوتی
وہ بھی مر جاتا اے کاش مجھ پر
اُسے بھی میرے پیار کی حسرت ہوتی
نہیں ٗ یہ تو بس رونا لکھ رہی ہوں
مر نہ جاتے گر اُس سے شکایت ہوتی
قطع تعلق وہیں پر خود سے کر دیتے
جہاں اُس سے شکایت حقیقت ہوتی
اُسے حالتِ ویران دکھانی تھی ہمیں
بے سکونی لکھنے سے گر فرصت ہوتی sobiya Anmol
کاش ایسی نہ میری قسمت ہوتی
محبت ہی میں رہ کر جیتی رہتی مَیں
محبت ہی سدا میری عبادت ہوتی
شرارتیں نہ اُس کی دل میں اُتری ہوتیں
تو کبھی نہ شروع یہ قیامت ہوتی
حوصلے محبت کے سدا ہوتے ہی رہتے
اندوہ و رنج ٗٗٗٗٗٗٗٗ الم کی گر یہ عنایت نہ ہوتی
وہ بھی مر جاتا اے کاش مجھ پر
اُسے بھی میرے پیار کی حسرت ہوتی
نہیں ٗ یہ تو بس رونا لکھ رہی ہوں
مر نہ جاتے گر اُس سے شکایت ہوتی
قطع تعلق وہیں پر خود سے کر دیتے
جہاں اُس سے شکایت حقیقت ہوتی
اُسے حالتِ ویران دکھانی تھی ہمیں
بے سکونی لکھنے سے گر فرصت ہوتی sobiya Anmol
جادو کرتا ہے وہ بس خاموش نظر سے جادو کرتا ہے وہ بس خاموش نظر سے
یہی جادو دیکھ رہی ہوں لمبی عمر سے
دلچسپ ہے اُسکا مست آنکھوں سے دیکھنا
میں خوش ہوں اُس کے مست منظر سے
زبان کھول نہ دے ٗ کہیں یہ ادا نہ چھوڑ دے
اظہارِ وفا نہیں کرتی مَیں اِسی ڈر سے
دُعائیں لیتا ہے لمبی لمبی دِکھا کے آنکھیں
داد لیتا ہے وہ شام و سحر اِسی ہنر سے
پیاس کا وسیع سمندر ہیں وہ مدہوش آنکھیں
خود مے و جام بھی ٗٗٗ یہ چرچا ہے شہر سے
جو پڑا تھا گھائل اِک عمر سے دشت میں
جی اُٹھا دیوانہ اُس کی اِک ہی لہر سے
للچا گئی روح زندگی پانے کے لیے پل میں
کام لے رہی تھی اندھیر نگروں میں صبر سے
اُس کا آنا ہی عذاب و زوال ہوتا ہے
صدائیں اُٹھنے لگتی ہیں دیوانوں کی قبر سے Sobiya Anmol
یہی جادو دیکھ رہی ہوں لمبی عمر سے
دلچسپ ہے اُسکا مست آنکھوں سے دیکھنا
میں خوش ہوں اُس کے مست منظر سے
زبان کھول نہ دے ٗ کہیں یہ ادا نہ چھوڑ دے
اظہارِ وفا نہیں کرتی مَیں اِسی ڈر سے
دُعائیں لیتا ہے لمبی لمبی دِکھا کے آنکھیں
داد لیتا ہے وہ شام و سحر اِسی ہنر سے
پیاس کا وسیع سمندر ہیں وہ مدہوش آنکھیں
خود مے و جام بھی ٗٗٗ یہ چرچا ہے شہر سے
جو پڑا تھا گھائل اِک عمر سے دشت میں
جی اُٹھا دیوانہ اُس کی اِک ہی لہر سے
للچا گئی روح زندگی پانے کے لیے پل میں
کام لے رہی تھی اندھیر نگروں میں صبر سے
اُس کا آنا ہی عذاب و زوال ہوتا ہے
صدائیں اُٹھنے لگتی ہیں دیوانوں کی قبر سے Sobiya Anmol
سینے میں میرے قلب مچلتا رہتا ہے سینے میں میرے قلب مچلتا رہتا ہے
موم کی طرح ہر وقت پگھلتا رہتا ہے
مبتلا ہے یہ آج بھی اُس ماضی میں
یاد کرتا رہتا ہے ٗ تڑپتا رہتا ہے
لوگ مسکراتے اِس کے آس پاس
یہ منہ اُٹھا کے دیکھتا رہتا ہے
حسرت کرتا ہے جینے کی مگر
جیتا نہیں ٗ سوچ سوچ کے مرتا رہتا ہے
بے زبان ہے اُس کے سامنے آتے ہی
تنہائی میں کسی سے کچھ کہتا رہتا ہے
دیوانہ سا ہے پہلے دن ہی سے
نامانوس سے رستوں پر بھٹکتا رہتا ہے
پھولوں کو چُھو چُھو کے دیکھتا ہے
بھری بھیگی برسات میں جلتا رہتا ہے Sobiya Anmol
موم کی طرح ہر وقت پگھلتا رہتا ہے
مبتلا ہے یہ آج بھی اُس ماضی میں
یاد کرتا رہتا ہے ٗ تڑپتا رہتا ہے
لوگ مسکراتے اِس کے آس پاس
یہ منہ اُٹھا کے دیکھتا رہتا ہے
حسرت کرتا ہے جینے کی مگر
جیتا نہیں ٗ سوچ سوچ کے مرتا رہتا ہے
بے زبان ہے اُس کے سامنے آتے ہی
تنہائی میں کسی سے کچھ کہتا رہتا ہے
دیوانہ سا ہے پہلے دن ہی سے
نامانوس سے رستوں پر بھٹکتا رہتا ہے
پھولوں کو چُھو چُھو کے دیکھتا ہے
بھری بھیگی برسات میں جلتا رہتا ہے Sobiya Anmol
چھائی رہتی ہے ہر وقت نیم خوابی سی چھائی رہتی ہے ہر وقت نیم خوابی سی
جب سے صورت دیکھ لی گلابی سی
موتیوں سا اُس کا روپ تھا مانو
مست آنکھ تھی اُس کی شرابی سی
مچل رہا ہوں تصورات میں اُس کے
عجب لگی ہوئی ہے اضطرابی سی
روح بن کر پہنچ جاؤں اُس کے پاس
اِسی بات کی ہر پل ہے شتابی سی
اب تک تو کبھی ایسی نہ تھی یہ
نظر ہو گئی ہے اب بے حجابی سی
دل کا چارہ کرو ٗ کوئی تو چارہ گرو
دل میں ہو گئی ہے خرابی سی
کر لو جو جو ہے بن پڑتا تم سے
کہانی ہوتی جا رہی ہے کتابی سی Sobiya Anmol
جب سے صورت دیکھ لی گلابی سی
موتیوں سا اُس کا روپ تھا مانو
مست آنکھ تھی اُس کی شرابی سی
مچل رہا ہوں تصورات میں اُس کے
عجب لگی ہوئی ہے اضطرابی سی
روح بن کر پہنچ جاؤں اُس کے پاس
اِسی بات کی ہر پل ہے شتابی سی
اب تک تو کبھی ایسی نہ تھی یہ
نظر ہو گئی ہے اب بے حجابی سی
دل کا چارہ کرو ٗ کوئی تو چارہ گرو
دل میں ہو گئی ہے خرابی سی
کر لو جو جو ہے بن پڑتا تم سے
کہانی ہوتی جا رہی ہے کتابی سی Sobiya Anmol
جینے کو رستہ کوئی آسان دیکھو جینے کو رستہ کوئی آسان دیکھو
نہ محبت کا گلستان دیکھو
مر جاؤ گے ٗ مٹ جاؤ گے
نہ اس کو کبھی مہربان دیکھو
سینے میں چھید کر دے گی
اسے دکھ بھری داستان دیکھو
تقصیرِ کبیرہ نہ کر بیٹھنا
جگانے سے پہلے ارمان دیکھو
منہ زور گھٹاؤں سے واسطہ نہ رکھو
معصوم دل ہے ٗ اپنی جان دیکھو
جلا ڈالے ہیں کئی دیوانے اس نے
گزری جہاں جہاں سے ٗ نشان دیکھو
قبروں میں پڑے ہیں وہ لوگ
اس کے لائے ہوئے طوفان دیکھو Sobiya Anmol
نہ محبت کا گلستان دیکھو
مر جاؤ گے ٗ مٹ جاؤ گے
نہ اس کو کبھی مہربان دیکھو
سینے میں چھید کر دے گی
اسے دکھ بھری داستان دیکھو
تقصیرِ کبیرہ نہ کر بیٹھنا
جگانے سے پہلے ارمان دیکھو
منہ زور گھٹاؤں سے واسطہ نہ رکھو
معصوم دل ہے ٗ اپنی جان دیکھو
جلا ڈالے ہیں کئی دیوانے اس نے
گزری جہاں جہاں سے ٗ نشان دیکھو
قبروں میں پڑے ہیں وہ لوگ
اس کے لائے ہوئے طوفان دیکھو Sobiya Anmol
اِس سے پہلے کہ زندگی سنگین ہو جائے اِس سے پہلے کہ زندگی سنگین ہو جائے
کہ ساری کی ساری نہ غمگین ہو جائے
کیوں نہ بھول جائیں سب خطاؤں کو
پھر ایک دوسرے پر یقین ہو جائے
ابرِ محبت ہو سر پہ چھایا ہوا ہر سُو
پیروں تلے بھروسۂ وفا زمین ہو جائے
لوٹ آؤ اگر ہاتھوں میں ہاتھ دے دو
تو زندگی پھر سے ایک بار حسین ہو جائے
جو خزاں ہے چھائی ہوئی وفاؤں پہ
اُتر جائے وفا سے ٗ رنگ رنگین ہو جائے
جاتی ہوئی سانسوں کو سانس آ جائے
کھوئے ہوئے اعتبار کو تسکین ہو جائے
روح سما جائے ایک دوسرے کے اندر
دل ایک دوسرے کے دل کا مکین ہو جائے Sobiya Anmol
کہ ساری کی ساری نہ غمگین ہو جائے
کیوں نہ بھول جائیں سب خطاؤں کو
پھر ایک دوسرے پر یقین ہو جائے
ابرِ محبت ہو سر پہ چھایا ہوا ہر سُو
پیروں تلے بھروسۂ وفا زمین ہو جائے
لوٹ آؤ اگر ہاتھوں میں ہاتھ دے دو
تو زندگی پھر سے ایک بار حسین ہو جائے
جو خزاں ہے چھائی ہوئی وفاؤں پہ
اُتر جائے وفا سے ٗ رنگ رنگین ہو جائے
جاتی ہوئی سانسوں کو سانس آ جائے
کھوئے ہوئے اعتبار کو تسکین ہو جائے
روح سما جائے ایک دوسرے کے اندر
دل ایک دوسرے کے دل کا مکین ہو جائے Sobiya Anmol
دل ہی نہ رہا ٗ چاہت کیا کرتے دل ہی نہ رہا ٗ چاہت کیا کرتے
اُسکے ستموں کی شکایت کیا کرتے
صفحہ ہی پھاڑ دیا اُس کے نام کا
گھٹ گھٹ کے یوں ندامت کیا کرتے
ہوئی تھی اِک خطا ٗ سو ہو گئی
پچھتاتے رہنے کی بے وجہ عادت کیا کرتے
تعلق ہی توڑ دیا ٗ یہی بہتر لگا
محبت تھی اُس سے ٗ نفرت کیا کرتے
زحمت ہوتے ہی زوال نہ بن جاتی
اُسے جھیلتے رہنے کی زحمت کیا کرتے
خدا کی جانب منہ موڑ دیا اُس نے
اچھا ہی کیا ٗ اُس سے معزرت کیا کرتے
چپ تان لی اُس کی بے وفائی سے بس
کیا ہو جاتا بھلا ٗ قیامت کیا کرتے Sobiya Anmol
اُسکے ستموں کی شکایت کیا کرتے
صفحہ ہی پھاڑ دیا اُس کے نام کا
گھٹ گھٹ کے یوں ندامت کیا کرتے
ہوئی تھی اِک خطا ٗ سو ہو گئی
پچھتاتے رہنے کی بے وجہ عادت کیا کرتے
تعلق ہی توڑ دیا ٗ یہی بہتر لگا
محبت تھی اُس سے ٗ نفرت کیا کرتے
زحمت ہوتے ہی زوال نہ بن جاتی
اُسے جھیلتے رہنے کی زحمت کیا کرتے
خدا کی جانب منہ موڑ دیا اُس نے
اچھا ہی کیا ٗ اُس سے معزرت کیا کرتے
چپ تان لی اُس کی بے وفائی سے بس
کیا ہو جاتا بھلا ٗ قیامت کیا کرتے Sobiya Anmol
اُسے مجھ سے کوئی شکایت نہ رہی اُسے مجھ سے کوئی شکایت نہ رہی
کیا سمجھوں اِسے کہ محبت نہ رہی
یا ہار گیا وہ محبت کے آگے
محبت کو جھیلنے کی ہمت نہ رہی
الجھا الجھا سا ہے وہ کئی دنوں سے
اُس کی باتوں میں وہ شدت نہ رہی
زمانے کا ہی ہو کے رہ گیا ہے
میرے ملن کی اُسے فرصت نہ رہی
ہمارا دیدار اُس کی ضرورت تھا کبھی
اب اُسے اِس کی ضرورت نہ رہی
وہ اکثر دیکھا کرتا تھا حیرانگی سے
نظر میں اُس کی حیرت نہ رہی
تقدیر نے رنگ ہی بدل ڈالے اپنے
نصیبوں میں اپنے وہ رحمت نہ رہی Sobiya Anmol
کیا سمجھوں اِسے کہ محبت نہ رہی
یا ہار گیا وہ محبت کے آگے
محبت کو جھیلنے کی ہمت نہ رہی
الجھا الجھا سا ہے وہ کئی دنوں سے
اُس کی باتوں میں وہ شدت نہ رہی
زمانے کا ہی ہو کے رہ گیا ہے
میرے ملن کی اُسے فرصت نہ رہی
ہمارا دیدار اُس کی ضرورت تھا کبھی
اب اُسے اِس کی ضرورت نہ رہی
وہ اکثر دیکھا کرتا تھا حیرانگی سے
نظر میں اُس کی حیرت نہ رہی
تقدیر نے رنگ ہی بدل ڈالے اپنے
نصیبوں میں اپنے وہ رحمت نہ رہی Sobiya Anmol
کانٹوں میں الجھ گئی ہے زندگی میری کانٹوں میں الجھ گئی ہے زندگی میری
سزائے سخت بن گئی بندگی میری
اُسے چاہنا ہی بس عذاب بنا
کھا گئی چین میرا دوستی میری
بے دردی سے مجھے وہ چھوڑ گیا
نہ دیکھی اُس نے خوشی میری
دل کی صداؤں کو سن نہ پایا
اُس نے دیکھی بس بے رُخی میری
زبان نہ کھول سکی ٗ مَیں مجبور تھی
کیسے بتاتیٗ تھی کیا مجبوری میری
سنگ رہتے ہوئے بھی سمجھ نہ پایا
میرا اندھا اعتبار تھا تردامنی میری
زمانہ طعنے پہ طعنے دے رہا ہے
عمر رُسوا ہو گئی پوری میری Sobiya Anmol
سزائے سخت بن گئی بندگی میری
اُسے چاہنا ہی بس عذاب بنا
کھا گئی چین میرا دوستی میری
بے دردی سے مجھے وہ چھوڑ گیا
نہ دیکھی اُس نے خوشی میری
دل کی صداؤں کو سن نہ پایا
اُس نے دیکھی بس بے رُخی میری
زبان نہ کھول سکی ٗ مَیں مجبور تھی
کیسے بتاتیٗ تھی کیا مجبوری میری
سنگ رہتے ہوئے بھی سمجھ نہ پایا
میرا اندھا اعتبار تھا تردامنی میری
زمانہ طعنے پہ طعنے دے رہا ہے
عمر رُسوا ہو گئی پوری میری Sobiya Anmol
کھڑی کرتا ہے رستے میں دیوار کہیں کہیں کھڑی کرتا ہے رستے میں دیوار کہیں کہیں
شاید اُس کے دل میں ہے پیار کہیں کہیں
گماں ہوتا ہے اُس کی نادان حرکتوں سے
ملتے ہیں محبت کے آثار کہیں کہیں
چپ کے تالے کھلنے لگے ہیں دھیرے دھیرے
چھیڑتا ہے باتوں باتوں میں ذکرِ یار کہیں کہیں
رُلا دیتا ہے مجھے ٗ رو پڑتا ہے خود بھی
بننا چاہتا ہے وہ میرا غم خوار کہیں کہیں
نگاہیں جھکا لیتا ہے محفل میں بیٹھے ہوئے
سجے ہیں اُس دل کے کوچہ و بازار کہیں کہیں
دل میں کیا ہے مگر صاف صاف نہیں کہتا
شاید وہ بھی ہے محبت کا گنہگار کہیں کہیں Sobiya Anmol
شاید اُس کے دل میں ہے پیار کہیں کہیں
گماں ہوتا ہے اُس کی نادان حرکتوں سے
ملتے ہیں محبت کے آثار کہیں کہیں
چپ کے تالے کھلنے لگے ہیں دھیرے دھیرے
چھیڑتا ہے باتوں باتوں میں ذکرِ یار کہیں کہیں
رُلا دیتا ہے مجھے ٗ رو پڑتا ہے خود بھی
بننا چاہتا ہے وہ میرا غم خوار کہیں کہیں
نگاہیں جھکا لیتا ہے محفل میں بیٹھے ہوئے
سجے ہیں اُس دل کے کوچہ و بازار کہیں کہیں
دل میں کیا ہے مگر صاف صاف نہیں کہتا
شاید وہ بھی ہے محبت کا گنہگار کہیں کہیں Sobiya Anmol
ہوں گے کئی چاہنے والے ٗ ہم نہ ہوں گے ہوں گے کئی چاہنے والے ٗ ہم نہ ہوں گے
اب تیرے نصیب میں ستم نہ ہوں گے
نام ظلموں کا دیا میری اپنائیت کو تُو نے
میرے خلوص کے اب تجھے غم نہ ہوں گے
چھوڑ جاؤں گی میں تجھے تیرے حال پہ
مگر یاد رہے ٗ محبت کے پل ختم نہ ہوں گے
یہ اور بات ہے کہ تُو ساتھ نہ ہو گا
یہ اور بات ہے کہ وہ موسم نہ ہوں گے
جو کبھی جوڑے تھے نازوں سے ہم نے
وہ کھوئے ہوئے تعلق باہم نہ ہوں گے
کونہ ڈھونڈ لیں گے دنیا کا کوئی
جہاں محبت کے ریت رسم نہ ہوں گے Sobiya Anmol
اب تیرے نصیب میں ستم نہ ہوں گے
نام ظلموں کا دیا میری اپنائیت کو تُو نے
میرے خلوص کے اب تجھے غم نہ ہوں گے
چھوڑ جاؤں گی میں تجھے تیرے حال پہ
مگر یاد رہے ٗ محبت کے پل ختم نہ ہوں گے
یہ اور بات ہے کہ تُو ساتھ نہ ہو گا
یہ اور بات ہے کہ وہ موسم نہ ہوں گے
جو کبھی جوڑے تھے نازوں سے ہم نے
وہ کھوئے ہوئے تعلق باہم نہ ہوں گے
کونہ ڈھونڈ لیں گے دنیا کا کوئی
جہاں محبت کے ریت رسم نہ ہوں گے Sobiya Anmol
اُس ظالم کا اگر ہمیں غم نہ ہوتا اُس ظالم کا اگر ہمیں غم نہ ہوتا
تو لمحہ لمحہ یہ دل پُر نم نہ ہوتا
کاش مرتا رہتا ہم پہ ہماری طرح
دل کو بھایا ہوا بے رحم نہ ہوتا
رنگینیٔ اُلفت ہوتی اپنے چاروں سو
یہ جدائیاں نہ ہوتیں ٗ یہ سہم نہ ہوتا
اتنا نہ وہ ناواقف ہم سے ہوتا
راہِ محبت میں آ کے یہ ستم نہ ہوتا
جیتے رہتے ہم بھی لوگوں کی طرح
جینا مشکل ہو جاتا ٗ جینا ختم نہ ہوتا
حالات کہاں تک لے آئے ہمیں
فساد اتنا دلوں کے باہم نہ ہوتا
اُسے جانا تھا تو دھیرے دھیرے چلا جاتا
جو ہوا وہ کم سے کم یک دم نہ ہوتا sobiya Anmol
تو لمحہ لمحہ یہ دل پُر نم نہ ہوتا
کاش مرتا رہتا ہم پہ ہماری طرح
دل کو بھایا ہوا بے رحم نہ ہوتا
رنگینیٔ اُلفت ہوتی اپنے چاروں سو
یہ جدائیاں نہ ہوتیں ٗ یہ سہم نہ ہوتا
اتنا نہ وہ ناواقف ہم سے ہوتا
راہِ محبت میں آ کے یہ ستم نہ ہوتا
جیتے رہتے ہم بھی لوگوں کی طرح
جینا مشکل ہو جاتا ٗ جینا ختم نہ ہوتا
حالات کہاں تک لے آئے ہمیں
فساد اتنا دلوں کے باہم نہ ہوتا
اُسے جانا تھا تو دھیرے دھیرے چلا جاتا
جو ہوا وہ کم سے کم یک دم نہ ہوتا sobiya Anmol
دل بار بار پیار کی دہائی دیتا ہے دل بار بار پیار کی دہائی دیتا ہے
نہیں سمجھتا کہ یہ جدائی دیتا ہے
خوشیوں کی اِک جھلک دکھا کے
غموں کی سخت پرچھائی دیتا ہے
امیدیں سب کی سب توڑ دیتا ہے
درد دل ہی میں انتہائی دیتا ہے
بدنامیاں فرقتیں ٗ ذلّتیں ٗ ندامتیں
یہ سب محبت کی کمائی دیتا ہے
بُلا لیتا ہے اپنے دیار میں مگر
بُلا کے بُری طرح رُسوائی دیتا ہے
لمحہ لمحہ دفن رکھتا ہے یہ
سوچوں کی دلچسپ گہرائی دیتا ہے
نا آشنا کر دیتا ہے سنسار سے
بھری محفل میں تنہائی دیتا ہے Sobiya Anmol
نہیں سمجھتا کہ یہ جدائی دیتا ہے
خوشیوں کی اِک جھلک دکھا کے
غموں کی سخت پرچھائی دیتا ہے
امیدیں سب کی سب توڑ دیتا ہے
درد دل ہی میں انتہائی دیتا ہے
بدنامیاں فرقتیں ٗ ذلّتیں ٗ ندامتیں
یہ سب محبت کی کمائی دیتا ہے
بُلا لیتا ہے اپنے دیار میں مگر
بُلا کے بُری طرح رُسوائی دیتا ہے
لمحہ لمحہ دفن رکھتا ہے یہ
سوچوں کی دلچسپ گہرائی دیتا ہے
نا آشنا کر دیتا ہے سنسار سے
بھری محفل میں تنہائی دیتا ہے Sobiya Anmol
آنکھیں کھلی رہی میری مرنے کے بعد بھی آنکھیں کھلی رہی میری مرنے کے بعد بھی
سکوں نہ آیا کچھ کرنے کے بعد بھی
وہ دیکھتا دیکھ کر مجھے چلا گیا
اور میں جُھکی رہوں اکڑنے کے بعد بھی
گھائل پہلے سے بھی کہیں اور ہو گئی
اُجڑی رہی میں آخر سنورنے کے بعد بھی
اندھیرے ساتھی جنم جنم کے ہو گئے
چھائے رہے دن کے نکلنے کے بعد بھی
روزِمحشر بنا وہ روز مجھ پہ
بچھڑ نہ پائی اُس سے بچھڑنے کے بعد بھی Sobiya Anmol
سکوں نہ آیا کچھ کرنے کے بعد بھی
وہ دیکھتا دیکھ کر مجھے چلا گیا
اور میں جُھکی رہوں اکڑنے کے بعد بھی
گھائل پہلے سے بھی کہیں اور ہو گئی
اُجڑی رہی میں آخر سنورنے کے بعد بھی
اندھیرے ساتھی جنم جنم کے ہو گئے
چھائے رہے دن کے نکلنے کے بعد بھی
روزِمحشر بنا وہ روز مجھ پہ
بچھڑ نہ پائی اُس سے بچھڑنے کے بعد بھی Sobiya Anmol
یہ کیسی تمنا جگا بیٹھے یہ کیسی تمنا جگا بیٹھے
بے وفا سے آس لگا بیٹھے
ستانا تو نہ تھا دل کو
مگر آخر ہم ستا بیٹھے
اُس کو یاد کرتے کرتے
ساری دنیا کو بھلا بیٹھے
خطا سب سے بڑی ہو گئی
اُسے آنکھوں پہ بٹھا بیٹھے
وہ آئے یا نہ آئے مگر
ہم اُس کی سیج سجا بیٹھے
محبت کیا کرےٗ نہیں جانتے
ہم فسانۂ دل سنا بیٹھے
جس سے دنیا بھاگتی ہے
اُسی کونے میں جا بیٹھے
ستم یہ خود پر کر ڈالا
عمر بھر کا رونا رُلا بیٹھے
اب کیا وقعت رہے محبت کی
ہم دمن میں اُسے بُلا بیٹھے
ہم دل پہ قابو رکھے ہوئے تھے
وہ سامنے مگر آ بیٹھے
جہاں دنیا پیار میں تھی
باتوں میں ہم بھی جتا بیٹھے
وہ یوں دل میں اُتر گئے
دو آنسو نامِ محبت بہا بیٹھے Sobiya Anmol
بے وفا سے آس لگا بیٹھے
ستانا تو نہ تھا دل کو
مگر آخر ہم ستا بیٹھے
اُس کو یاد کرتے کرتے
ساری دنیا کو بھلا بیٹھے
خطا سب سے بڑی ہو گئی
اُسے آنکھوں پہ بٹھا بیٹھے
وہ آئے یا نہ آئے مگر
ہم اُس کی سیج سجا بیٹھے
محبت کیا کرےٗ نہیں جانتے
ہم فسانۂ دل سنا بیٹھے
جس سے دنیا بھاگتی ہے
اُسی کونے میں جا بیٹھے
ستم یہ خود پر کر ڈالا
عمر بھر کا رونا رُلا بیٹھے
اب کیا وقعت رہے محبت کی
ہم دمن میں اُسے بُلا بیٹھے
ہم دل پہ قابو رکھے ہوئے تھے
وہ سامنے مگر آ بیٹھے
جہاں دنیا پیار میں تھی
باتوں میں ہم بھی جتا بیٹھے
وہ یوں دل میں اُتر گئے
دو آنسو نامِ محبت بہا بیٹھے Sobiya Anmol
بے وفاؤں کے انتظار میں پڑے رہے بے وفاؤں کے انتظار میں پڑے رہے
صدیوں پرانے پیار میں پڑے رہے
فرد نہ سچا کوئی ہم میں آیا
دل ہم میں ٗ ہم دلِ بیزار میں پڑے رہے
صبر و تحمل سے کام عمر بھر لیا
مر گئے تو سایۂ دیوار میں پڑے رہے
عہدِ وفا تھا رکاوٹِ ترکِ محبت
نہ پوچھو کہ کیوں ہم بےکار پڑے رہے
چُھوٹے نہ اُس کی فریبی محبت سے
کرتے ہی گئے ٗ گنہگار پڑے رہے
وہ کرشمے جفاؤں کے سرِ عام کرتا رہا
ہم انائے محبت میں وفادار پڑے رہے
لمحہ لمحہ میرے بے زبان عشق کے
قفسِ بدن میں گرفتار پڑے رہے Sobiya Anmol
صدیوں پرانے پیار میں پڑے رہے
فرد نہ سچا کوئی ہم میں آیا
دل ہم میں ٗ ہم دلِ بیزار میں پڑے رہے
صبر و تحمل سے کام عمر بھر لیا
مر گئے تو سایۂ دیوار میں پڑے رہے
عہدِ وفا تھا رکاوٹِ ترکِ محبت
نہ پوچھو کہ کیوں ہم بےکار پڑے رہے
چُھوٹے نہ اُس کی فریبی محبت سے
کرتے ہی گئے ٗ گنہگار پڑے رہے
وہ کرشمے جفاؤں کے سرِ عام کرتا رہا
ہم انائے محبت میں وفادار پڑے رہے
لمحہ لمحہ میرے بے زبان عشق کے
قفسِ بدن میں گرفتار پڑے رہے Sobiya Anmol
اِس گلشن نے بھی پھول کھلائے تھے کبھی اِس گلشن نے بھی پھول کھلائے تھے کبھی
وہ ہماری بھی باہوں میں آئے تھے کبھی
بدنامیاں ہماری جی بھر کے کی انہوں نے
جنہوں نے راز بھی ہمارے چھپائے تھے کبھی
اب پاس سے بھی نہیں گزرتے ہیں وہ
ہم اُن کے ٗ وہ ہمارے سائے تھے کبھی
اب نفرت ہی نفرت ہے ہمارے لیے
جنہوں نے محبت کے ڈھیر لگائے تھے کبھی
میرے باغیچے کی فضا بھی تازہ تھی کبھی
میرے آنگن میں تارے جھلملائے تھے کبھی
اب بے زبان ہیں ہم ٗ تو کیا ہوا
محبت بھرے گیت گنگنائے تھے کبھی
آج غیروں کا ہے سب کچھ ٗ تو کیا ہوا
ہماری خاطر بھی تحفے لائے تھے کبھی
اب اشکوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
سوچتی رہتی ہوں ٗ مسکرائے تھے کبھی
اب وہ پتھر ہو گیا ہے زمانے کے ساتھ
دو آنسو ہم نے بھی اُسے رُلائے تھے کبھی Sobiya Anmol
وہ ہماری بھی باہوں میں آئے تھے کبھی
بدنامیاں ہماری جی بھر کے کی انہوں نے
جنہوں نے راز بھی ہمارے چھپائے تھے کبھی
اب پاس سے بھی نہیں گزرتے ہیں وہ
ہم اُن کے ٗ وہ ہمارے سائے تھے کبھی
اب نفرت ہی نفرت ہے ہمارے لیے
جنہوں نے محبت کے ڈھیر لگائے تھے کبھی
میرے باغیچے کی فضا بھی تازہ تھی کبھی
میرے آنگن میں تارے جھلملائے تھے کبھی
اب بے زبان ہیں ہم ٗ تو کیا ہوا
محبت بھرے گیت گنگنائے تھے کبھی
آج غیروں کا ہے سب کچھ ٗ تو کیا ہوا
ہماری خاطر بھی تحفے لائے تھے کبھی
اب اشکوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
سوچتی رہتی ہوں ٗ مسکرائے تھے کبھی
اب وہ پتھر ہو گیا ہے زمانے کے ساتھ
دو آنسو ہم نے بھی اُسے رُلائے تھے کبھی Sobiya Anmol
لوگ کیسے دل لگا لیتے ہیں لوگ کیسے دل لگا لیتے ہیں
دل میں تمنا جگا لیتے ہیں
ہمیں تو معلوم نہیں پڑتا
کیسے دنیا بھلا لیتے ہیں
سبھی رشتے ناطے بھول کے
نئی دنیا بسا لیتے ہیں
محبت کے انمول جواہرات
بے وفاؤں پہ لٹا دیتے ہیں
راہ چلتے قربان ہو جاتے ہیں
اجنبی سے ہاتھ ملا لیتے ہیں
باتوں میں آ جاتے ہیں
آسِ وفا بڑھا لیتے ہیں
کسی پہ یوں مر جاتے ہیں
اُسے آنکھوں میں چھپا لیتے ہیں
بے خود اپنی ذات سے ہو کر
اُسے خود میں سما لیتے ہیں
بدلا دیتے ہیں خود کو ایسے
کہ خود ہی سے بدلہ لیتے ہیں Sobiya Anmol
دل میں تمنا جگا لیتے ہیں
ہمیں تو معلوم نہیں پڑتا
کیسے دنیا بھلا لیتے ہیں
سبھی رشتے ناطے بھول کے
نئی دنیا بسا لیتے ہیں
محبت کے انمول جواہرات
بے وفاؤں پہ لٹا دیتے ہیں
راہ چلتے قربان ہو جاتے ہیں
اجنبی سے ہاتھ ملا لیتے ہیں
باتوں میں آ جاتے ہیں
آسِ وفا بڑھا لیتے ہیں
کسی پہ یوں مر جاتے ہیں
اُسے آنکھوں میں چھپا لیتے ہیں
بے خود اپنی ذات سے ہو کر
اُسے خود میں سما لیتے ہیں
بدلا دیتے ہیں خود کو ایسے
کہ خود ہی سے بدلہ لیتے ہیں Sobiya Anmol
ہماری لبریز محبت کا ہمیں ثمر دیا ہوتا ہماری لبریز محبت کا ہمیں ثمر دیا ہوتا
ارمان و امید کو اُجلتا گھر دیا ہوتا
ساری عمر تو نہ مانگی تھی ہم نے
پیار ہمیں بس اِک ہی نظر دیا ہوتا
حقیقت نہ دے سکے ہمیں سکوں کی تم
سکوں کا سپنا ہی ہمیں او بے خبر دیا ہوتا
دو آنسو ہمارے لیے بھی بہا دیتے کبھی
ہم نے کب کہا ٗ خونِ جگر دیا ہوتا
لوگوں کی سنتے رہے تم ہر نئے دن
دھیان تھوڑا میری بھی بات پر دیا ہوتا
دنیا سنور جاتی تمہارے پیار سے ہماری
تم نے تحفۂ پیار ہمیں اگر دیا ہوتا
کاش آتا تمہیں ہم پر مر مٹ جانا
قدرت نے تمہیں چاہت کا گہر دیا ہوتا
یا کاش ملتا ہمیں بھی تم سا دل
خدا نے دلِ سنگدل یا بے اثر دیا ہوتا
Sobiya Anmol
ارمان و امید کو اُجلتا گھر دیا ہوتا
ساری عمر تو نہ مانگی تھی ہم نے
پیار ہمیں بس اِک ہی نظر دیا ہوتا
حقیقت نہ دے سکے ہمیں سکوں کی تم
سکوں کا سپنا ہی ہمیں او بے خبر دیا ہوتا
دو آنسو ہمارے لیے بھی بہا دیتے کبھی
ہم نے کب کہا ٗ خونِ جگر دیا ہوتا
لوگوں کی سنتے رہے تم ہر نئے دن
دھیان تھوڑا میری بھی بات پر دیا ہوتا
دنیا سنور جاتی تمہارے پیار سے ہماری
تم نے تحفۂ پیار ہمیں اگر دیا ہوتا
کاش آتا تمہیں ہم پر مر مٹ جانا
قدرت نے تمہیں چاہت کا گہر دیا ہوتا
یا کاش ملتا ہمیں بھی تم سا دل
خدا نے دلِ سنگدل یا بے اثر دیا ہوتا
Sobiya Anmol
درودیوار سجائے ہیں تیرے واسطے درودیوار سجائے ہیں تیرے واسطے
کتنے ہی آنسو گرائے ہیں تیرے واسطے
بھری دنیا میں تنہا خود کو کر ڈالا
سبھی لوگ بھلائے ہیں تیرے واسطے
لمحاتِ زندگی تو کب سے ختم کر دئیے
صبح و شام نبھائے ہیں تیرے واسطے
دیتے تو رنجش ہیں تیرے خطوط مگر
سینے سے چپکائے ہیں تیرے واسطے
محبت کی صحبت بھی بُری لگتی تھی
اِس حصار میں آئے ہیں تیرے واسطے
ستم پہ ستم دل معصوم پر جاری ہے
چراغِ اندوہ جلائے ہیں تیرے واسطے
رہتے تو نامکمل ہیں سدا سپنے میرے
یہ پلکوں پہ بٹھائے ہیں تیرے واسطے
نامِ کنارہ نہ کروں کہیں تجھ سے کبھی
اُمید کے پل بڑھائے ہیں تیرے واسطے Sobiya Anmol
کتنے ہی آنسو گرائے ہیں تیرے واسطے
بھری دنیا میں تنہا خود کو کر ڈالا
سبھی لوگ بھلائے ہیں تیرے واسطے
لمحاتِ زندگی تو کب سے ختم کر دئیے
صبح و شام نبھائے ہیں تیرے واسطے
دیتے تو رنجش ہیں تیرے خطوط مگر
سینے سے چپکائے ہیں تیرے واسطے
محبت کی صحبت بھی بُری لگتی تھی
اِس حصار میں آئے ہیں تیرے واسطے
ستم پہ ستم دل معصوم پر جاری ہے
چراغِ اندوہ جلائے ہیں تیرے واسطے
رہتے تو نامکمل ہیں سدا سپنے میرے
یہ پلکوں پہ بٹھائے ہیں تیرے واسطے
نامِ کنارہ نہ کروں کہیں تجھ سے کبھی
اُمید کے پل بڑھائے ہیں تیرے واسطے Sobiya Anmol