بارشوں کے موسم میں تیری یاد آتی ہے
دل سے ہوک اٹھتی ہے آنکھ بھیگ جاتی ہے
پھول میرے آنگن کے بن کھلے ہی مرجھائے
پھر بھی دل کے آنگن سے خوشبو تیری آتی ہے
میرے دل کی بستی میں ایک پگلی روزانہ
بیٹھ کے چوراہے پر بانسری بجاتی ہے
ساتھی کوئی کالج کا جب بھی مجھ سے ملتا ہے
حال بھول جاتا ہے یاد ماضی آتی ہے
کون یاد رکھتا ہے یار بیتے لمحوں کو
آنکھ سے جو اوجھل ہو چیز بھول جاتی ہے