اس چمن رنگ و نور کے ہیں دعویدار ہم
کلی کو چٹک، گل کو بُو نہ دیں اتنے بیکار ہیں ہم
کس سمت سے چلی ہے آ ج یہ ہوائے دلگیر
سن رہے ہیں دور سے اک پنچھی کی پکار ہم
اپنے آنگن کی حسیں تتلی کو یہ کس نے بیچ ڈالا
اغیار جس سے کھیلیں اور محو تماشہ پس دیوار ہم
پھر کسی قاسم کی منتظر لگتی ہے دختر حوا
اسے کیا معلوم کہ نہیں رہے اب باکردار ہم
جاکے کوئی اس سے اتنا کہہ دے کہ اے بہن
اپنے ضمیر پہ ماتم کدہ اور تیرے غمخوار ہیں ہم
ہم دونوں کی یہ سزا کچھ مختلف تو نہیں
تو جگر گوشوں کے لیئے دو نیم، تیرے غم خوار ہم
آئے گی اک روز وہ تنویر صبح جمال دیکھنا
کہ جس کا سپنا دیکھا کئے لیل و نہار ہم