✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
farah ejaz
Search
Add Poetry
Poetries by farah ejaz
میرا کشمیر یہ تیرا کشمیر
کشمیر میرا پیارا کشمیر
کشمیر جنت نظیر کشمیر
کشمیر لہو لہو کشمیر
میرا کشمیر
تیرا کشمیر
کشمیر پکار رہا ہے
قدم بڑھاؤ
اپنا ہاتھ بڑھاؤ
کشمیر کو تھام لو
مرہم پیار کا رکھ دو
اپنے ہونے کا احساس دلاؤ
میرا کشمیر
تیرا کشمیر
رقم کردوایک نئی داستان
مٹا دو ظلمت کے سارے ہی نشاں
ننگے سروں پر شفقت کی چادر اُڑھا دو
بلکتے سسکتے ہوؤں کو اب گلے لگا لو
کیوں کہ
یہ تیرا لہو کشمیر
یہ میرا لہو لہو کشمیر
میرا پیارا کشمیر
میرا پیارا کشمیر
Farah Ejaz
Copy
تم بہت یاد آئے
کوشش تو بہت کی بھول جانے کی پر
ہر موڑ پر ہی تم بہت یاد آئے
تم سے دور جانے کا فیصلہ بھی اپنا تھا
مگر دور ہو کر بھی تم بہت یاد آئے
جو کہہ نہ سکے تم سے کبھی
وہی سنا نا تھا شایداس لئے تم بہت یاد آئے
محبت کے بھی عجب رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں
کتاب الفت کو پڑھتے ہوئے تم بہت یاد آئے
جان کر بھی انجان بن گئے تھے ہم
وہی دل کی بات جان کر تم بہت یاد آئے
جو سلسلاسی سا تعلق تھا درمیان ہمارے
اسی کے ٹوٹنے پر تم بہت یاد آئے
شاید یہی انجام ہونا تھا ہماری محبت کا
اس لئے تم ہمیں بہت یاد آئے
Farah Ejaz
Copy
اے دل ٹہھر ذرا
دل ٹہھر ذرا
کچھ تو سوچ
کیا کہے گی دنیا
منہ زوری نہ کر
کچھ تو شرم کر
یوں بات نہ بڑھا
یوں نہ بہک
نہ چھیڑ
پھر وہی راگ
وہی ساز
جس کے بجنے سے
من گن گنا نے لگے
کوئی خیال
پھر گد گدانے لگے
چپ کر
اب خواب نہ بن
اتنا خوش فہم نہ کر مجھے
میں سلا چکی
جو جذبہ
اسے بیدار نہ
نہیں دیکھنا
کوئی خواب مجھے
نہیں بھاگنا ہے
کسی سراب کے پیچھے مجھے
چل اب تو بھی
پتھر بن جا
میری طرح
پنپتے جذبوں کو
برف کی طرح جمادے
اور خاموشی کی چادر اوڑھےسوجا
تو بھی خاموش
میں بھی خاموش
ساکن جھیل کی مانند
چل اب اٹھکیلیاں نہ کر
چپ ہوجا
بس میری طرح
تو بھی اب سوجا
اے دل ٹہھرذرا
اے دل ٹہھرذرا
Farah Ejaz
Copy
میرا کشمیر
کشمیر
میرا کشمیر
خوبصورت کشمیر
حسین وادیوں کا نگر
کیوں آخر کیوں
لہو لہان ہے
موت ظلم
بربریت کا
بازار کیوں گرم ہے
سنسان ویران ہر راہ اس کی
چھپائے اندر طوفان سا
کیوں ہے
سمجھتا ہے دشمن
ڈر گیا کشمیر
مگر ان نہتے جوانوں
کی آنکھوں میں اترتا خون
کیوں ہے
آج ہر بچہ ایک مجاہد بن گیا ہے
یہ بندشیں
یہ سازشیں
روک نہ پائینگیں
بڑھتے قدموں کو
جو آگے بس بڑھتے جائینگے
دشمن کو روندھتے ہوئے
ہاں میرا کشمیر
اب آزاد ہونے کو ہے
لاکھ پہرے بٹھاؤ
جبر کا بازار گرم رکھو
تم اس طوفان کے آگے
ٹہھر نہ پاؤگے
ہیلے تمہارے بودا۔۔۔
ہر سازش ہی گھٹیا
بے نقاب ہوگئے تم
جان گئی تمہیں
اب ساری دنیا ہی
کیوں کہ
جل رہا ہے کشمیر
جل رہا ہے کشمیر
farah ejaz
Copy
اچھا نہیں لگتا
ایک بار ہی مار دو ہمیں
یہ بار بار کا مرنا اچھا نہیں لگتا
تمہیں دیکھے ایک عرصہ ہوگیا
مگر تم سے ملنا ہمیں اچھا نہیں لگتا
تم سے تعلق دل کا ہے حضرت
اب دل بھی مگر اپنا اچھا نہیں لگتا
چاہت میں آزمانا منظور نہیں
تمہیں آزمائش میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا
یہ وقت نہیں ان باتوں کے دہرانے کا
یہ پل یوں گزارنا ہمیں اچھا نہیں لگتا
تعلق توڑ دو سارے تم آج ہی سے
مگر ٹوٹے رشتےجوڑنا اچھا نہیں لگتا
جو کچھ ہوں تمہارے سامنے ہوں
مکھٹے چہرے پر سجانا اچھا نہیں لگتا
پھر سے قلم ہاتھ میں لیا تو ہے
مگر اب کچھ لکھنا اچھا نہیں لگتا
ادب کی دنیا سے رشتہ پرانا ہے ہمارا لیکن
شہرت پانا مشہور ہوجانا اچھا نہیں لگتا
Farah Ejaz
Copy
ایک رات
رات کے اس پہر
ہم گھر سے نکل آئے
سارا شہر سو رہا تھا
ایکسوائے ہمارے
بے مقصد ہی یونہی
آوارگی پر دل اُکسا رہا تھا
نیندیا بھی روٹھی روٹھی سی تھی
من بھی تو گھر میں لگ نہیں رہا تھا
سو ہم تنہا ہی گھر سے چل پڑے
گھپ تاریک اماوس کی رات تھی
بدلیوں نے سارا آسمان ڈھکا ہوا تھا
چار سو میرے
ایک عجب سی خاموشی چھائی تھی
مدھم ٹمٹماتے دیے کی مانند
اسٹریٹ لائیٹس
ماحول کو ناکام روشن کرنے کی
کوشش کر رہی تھی
پر تاریکی تھی کہ
اور بڑھ رہی تھی
زرد پتے قدموں تلے میرے
چُر مُرا رہے تھے
بس انہی کی دم توڑتی
چیخیں تھیں فقط
ورنہ چاروں طرف خاموشی چھائی تھی
سڑک بھی سنسان تھی اور
میرے اندر بھی ایک سناٹا سا تھا
ان لمحوں میں سنگ فقط
میرا سایا تھا
بے مقصد ہی
یونہی میں چل رہی تھی
ہر سوچ سے دامن بچا کر
خود میں ہی کھوئی کھوئی سی
یادوں سے پیچھا چھڑانے کی
کوشش کر رہی تھی
نہ میں کچھ
اچھا سوچ رہی تھی
نہ برا سوچ رہی تھی
شاید خود سے ہی بھاگ رہی تھی
ہلکی بوندا باندی
اب شروع ہوچکی تھی
کبھی کبھی بادل بھی گرج کر
اپنی موجودگی کا اعلان کر رہے تھے
جب زور پکڑا آسمان پر
گرتے پانی کے قطروں نے
رفتار ہماری سست پڑنے لگی
بارش ہمیں بھگونے لگی
من پر چھائی یاسیت
چھٹنے لگی
ہمیں پرسکون کرنے لگی
کچھ دیر وہیں رک کر
ہم بارش میں بھیگتے رہے
من کو بھی سیراب کرتے رہے
پھر واپسی کی راہ لی
مگر بارش یونہی برستی رہی
یونہی برستی رہی ۔۔۔۔
Farah Ejaz
Copy
لکھنا چاہتی ہوں تم پر بہت کچھ
لکھنا چاہتی ہوں
تم پر بہت کچھ
مگر قلم ساتھ نہیں دیتا
تم سے ملنے کے بہانے
ڈھونڈتی ہوں
مگر سو اندیشے راہ میں
دیوار بن جاتے ہیں
کبھی سوچتی ہوں
کہہ دوں سب کچھ
جو کچھ دل میں
چھپا رکھا ہے
ہر راز سے پردہ اُٹھا دوں
میں تم پر اپناآپ ظاہر کردوں
لیکن پھر یہ سوچ کر
خود کو روک لیتی ہوں
مل کر تشنگی بڑھ گئی تو
پھر کیا ہوگا
تو انجان بن کر ملا تو
دل ٹوٹے گا
ساتھ میں مان بھی
تجھ پر جو بہت ہے
وہ بھی خاک میں مل جائے گا
محبت پر انا غالب آجاتی ہے
ہمیں ہماری خودی بھی تو پیاری ہے
پھر سوچتی ہوں
کبھی اتفاقاً
تجھ سے سامنا ہوگیا تو
کیا ہوگا
کیا اجنبی بن جائینگے ہم
اور راہ بدل لینگے
یا نظروں سے پھر ایک دوجے کو
سیراب کرینگے
ہم تجھ سے کچھ نہ کہینگے
بس تجھے دیکھینگے
دل کو شاد کرینگے
تجھ سے سنینگے
کوئی گیت البیلا سا
اور پھر آگے بڑھ جائینگے
کیونکہ
ندی کے دوکنارے
ساتھ تو چلتے ہیں
کبھی ایک نہیں ہوتے
آسمان سے زمین کا ملا پھی تو
ممکن نہیں
پھر سوچتی ہوں
اچھا ہے
میں تم سے دور ہوں
من کی آنکھ سے تمہیں قریب دیکھوں
اور مورت بنا کر
من آنگن کے سنگھاسن پر بٹھالوں
چپ چاپ تمہیںچاہوں
اور تمہیں خبر بھی نہ ہو
سوچتی ہوں فقط اتنا ہی
کیا تم بھی ایسا ہی سوچتے ہوگے
کیا کچھ میرے لئے بھی لکھا ہوگا
کیا مجھے بھی تم نے گنگنایا ہوگا
بس یونہی اکثر
ایسے ہی خیال آجاتا ہے
کچھ لکھنے بیٹھوں تو
تم پر بہت کچھ
لکھنے کو من کرتا ہے
پر قلم رک جاتا ہے
پر قلم رک جاتا ہے
Farah Ejaz
Copy
سیاست گری
متفق ہوں ہر بات سے آپ کی اگرچہ
مگر چپ رہنے میں ہی عافیت ہے
سیاسی بکھیڑے ہیں ملک خداد میں بہت
اور زرد لفافے میں لپٹی چُر مُری صحافت ہے
خونِ ناحق سے ہاتھ سبھی کے ہیں رنگین یہاں
اعوانوں میں بیٹھے کچھ ایسے قاتل بھی ہیں
شمع جل جل کر آپ بجھ گئی تو غم کیا
تماشبین سب ہی یہاں اس کے پروانے ہیں
ہن برستا ہے چاہے کہیں سے بھی برسے
قانون بکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ خریدار بہت ہیں
شیخ صاحب حج پر بخشوا آئے گناہے عظیم
پھر سے ہوگئے معصوم یہاں شریف کچھ تو بات ہے
فرح بی بی سر کھجانے سے سمجھ نہ آئے گی سیاست گری
یہ اناڑیوں کا نہیں کھیل، شاطروں کی شاطرانہ بساط ہے
موردِالزام نہ ٹھہرائے مجھے حضور بھری محفل میں
جو بھی لکھا فقط ایک دیوانی کی بڑ بڑ ہے
Farah Ejaz
Copy
آخر کیوں !
دیکھو تو پھر کہیں سے ندا آئی ہے
دیکھو تو پھر کہیں سے دھواں اُٹھا ہے
دیکھو تو کس کی ہنستی بستی اُجڑی دنیا ہے
دیکھو تو جس کا تماشہ دیکھتا سارا جہاں ہے
چاروں سمت انارکی پھیل رہی ہے کیوں
نفرت جیت رہی ہے محبت ہار رہی ہے کیوں
بھوک پیاس سے بلکتی تڑپتی یہ دنیا ہے کیوں
وحشت بر بریت کا اندھا قانون نافظ یہاں ہے کیوں
جھوٹے کا بول بالا ۔۔۔ سچ اتنا کڑوا لگتا ہے کیوں
عصمتیں لُٹ رہی ہیں موت بٹ رہی ہے کیوں
لاشوں پر سیاست سبھی کرتے ہیں کیوں
لٹیرے ہی حکومت کرتے نظر آتے ہیں کیوں
عوام کیا حکمران کیا خواص و عام کیا
بے حثی کی انتہا ہے آخر کیوں ! کیوں ! کیوں ۔۔۔۔
farah ejaz
Copy
زمانہ
بدل گیا زمانہ
ہر روز ہی ایک نیا تماشہ
کہیں میلے لگتے ہیں لوگ گلے ملتے ہیں
کوئی تنہا سا اکیلا ہے کھڑا
کہیں شراب شباب و رنگ و بوکا ہے سماں
کہیں آہو فغاں سے تھر تھرا رہا ہے جہاں
دل بھی بکتے ہیں ہمدم بھی بکاؤ مال ہے یہاں
دنیا ہے عجب بھانت بھانت بولیاں ہیں یہاں
منافقت پر شرافت کی چربی چڑھائے
تو یہاں بیٹھا ہے وہ وہاں ہے بیٹھا اور میں یہاں
کچھ تو کہئے فرح بی بی چپ سادھ لی ہے ایسے کیوں
کیا ضمیر کی عدالت نے آپ کو ہی ملزم ٹہرا دیا ہے یہاں
farah ejaz
Copy
میرے اندر تو ہی تو ہر پل فقط تو ہی تو ہوتا ہے
محبتوں کا شاید یہی انجام ہوتا ہے
خوشی کے بعد غم طویل ہوتا ہے
قربتوں سے فاصلے بڑھتے ہیں درمیان مگر
دور رہ کر بھی کوئی دل کے قریب ہوتا ہے
زمانے بیت گئے ایک تجھے یاد کرتے کرتے
شہر دل انہیں یادوں سے تو آباد ہوتا ہے
تو جان ہے میری تو ہی جینے کی وجہ بھی
میرے اندر تو ہی تو ہر پل فقط تو ہی تو ہوتا ہے
اس کے بغیر زندگی گزر تو جائیگی فرح بی بی
ایسے ہی جیسے مکین کے بغیر گھر ویران ہوتا ہے
میں رہوں یا نہ رہوں تو رہے یا نہ رہے کیا فرق پڑتا ہے
امر تو وہ ہے --------- جو محبتوں کا امین ہوتا ہے
شربتٍ حیات پی کر اب کرنا کیا
جس کا انجام آخر کار مرنا ہوتا ہے
من میں لگی آگ کو بجھا کر دکھاؤ تو تم ہمیں بھی ذرا
دیکھوں تو بجھنے کے بعد دھواں کس قدر ہوتا ہے ۔۔۔
farah ejaz
Copy
بلا عنوان
شام ڈھل جائے گی
بات رہ جائے گی
تجھ سے گلے تو بہت تھے مگر
درمیان فقط محبت رہ جائے گی
مانا تو ہرجائی ہے مگر اے دوست
تجھ پر ہی سانس میری اٹک جائے گی
تجھے پاکر کھونے کا خوف سدا ڈراتا رہا
دور جاکر بھی تو خٰیالوں میں شامل حال رہا
کچھ اسطرح میری زندگی پر حاوی رہا
برباد ہوکر بھی تیرے ہاتھوں
تیرے لئے ہر پل دل دعا کرتا رہا
farah ejaz
Copy
کوئی تو سن لے ہماری بھی
آج کل شعر کوئی سوجھتا نہیں
اسی لئے داد کوئی مگر دیتا نہیں
کیا لکھ رہے ہیں کیا پڑھ رہے ہیں ہم
سٹھیا گئی ہے بڈھی دل مگر مانتا نہیں
کہنے کو تو لکھاری ہم کہلاتے ہیں
کیا لکھا ہے خود کو بھی آسان مگر لگتا نہیں
گھنٹوں سر کھپاتے ہیں ایک مصرعہ لکھنے میں
دوسرے تک آتے آتے کوئی تُک مگر بنتا نہیں
اجی پڑھ لی جئے صاحب ہماری بھی کبھی
نادر کتاب ہے مارکٹ میں مگر دستیاب نہیں
جناب کل ہی کی بات ہے محفل مشاعرہ میں
اپنی باری پر ہمیں کوئی سننے کو مگر ملتا نہیں ۔
farah ejaz
Copy
بلاعنوان
سفر کے آغاز میں ہی لوٹ لیا تم نے
کتنے پیار سے موت کے گھاٹ اتارا تم نے
میں بھول چکی تھی ہر غم و فکر تیری چاہ میں
ہاتھ پکڑ کر پھر سے آندھیوں کے حوالے کردیا تم نے
farah ejaz
Copy
محبت امر بیل ہی تو ہے
جب تم میرے پاس ہوتے ہو تو
وقت تھم سا جاتا ہے
میںمیں نہیں رہتی میں تم بن جاتی ہوں
تمہارے رنگ میں رنگ جاتی ہوں
کیسی انا کیسی زد
مگر محبت میں بھی ایک پاکیزگی برقرار رہتی ہے
شرم و حیا درمیاں حائل رہتی ہے
کھل کر بھی تم پر کھلتی نہیں
درمیاں سے خاموشی مگر جاتی نہیں
صرف تمہیں سنے کی چاہ میں لب سی لیتی ہوں
مگر تم بھی تو خاموش ہو جاتے ہو
کچھ کہتے نہیں
اداسیت آنکھوں سے جھلکتی ہے
زبان چپ رہتی ہے
ساتھ ہوکر بھی ساتھ نہیں
پھر بھی دلی تمنا ہے کہ
یہ سفر ختم نہ ہو
کیونکہ دل سنتا ہے
دل کی زباں
جسے لفظوں میں بیان کرنے کی
نہ تمہیں ضرورت ہے نہ مجھے
محبت امر بیل کی بن کر
میری سانسوں سے لپٹی جارہی
مجھے اندر سے مار رہی ہے
دیمک کی طرح چاٹ رہی
ہاں تمہاری محبت مجھے مار رہی ہے
مجھے ختم کر رہی ہے ۔۔۔
farah ejaz
Copy
کمبخت دل
اب درد کا احساس بھی مرنے لگا
دل جب سے رنجور سا رہنے لگا
کمزور سا دل تیز اندھیوں کی زد میں میرا
دیکھو دغا دینے پر تلنے لگا
حشر سا ہے برپا میرے اندر کہیں
سارا نظام ہی من کا درہم برہم ہونے لگا
چاہا تھا کچھ پل ادھار زندگی سے لے لینگے
کمبخت روح سے جسم کا تعلق ہی ٹوٹنے لگا
farah ejaz
Copy
کہتے ہیں سبھی
کہتے ہیں سبھی کہ کوئی خوشی کا گیت لکھوں
یہ درد بھری غزلوں کے علاوہ بھی کچھ اور لکھوں
دل رورہا ہو پر ہنسی ہونٹوں پر بکھراؤں
من کے خلاف جاکر میں بھی کوئی گیت گنگناؤں
یہ درد میں ڈوبے اشعار یہ غمگین غزلیں یہ اداسیت
بہت ہوچکا اب قلم کو کسی اور سمت میں چلاؤں
نادان جانتے نہیں یہی مرا اصل ہے یہی تو میں ہوں
کیا میں اپنی فطرت کے خلاف جاکر اب ان کو دکھاؤں
farah ejaz
Copy
ادب سے ادیب
سبق پھر پڑھنے کی دھرانے کی ضرورت ہے
اخلاص کیا بلا ہوتی ہے جاننے کی ضرورت ہے
ادب سے ادیب نکلا ہے سبھی کو یہ پتا ہے مگر
بے ادبوں کو ادب کے معانی سیکھنے کی ضرورت ہے
farah ejaz
Copy
دھوم اتنی ترے دیوانے مچا سکتے ہیں
دھوم اتنی ترے دیوانے مچا سکتے ہیں
کہ ابھی عرش کو چاہیں تو ہلاسکتے ہیں
مجھ سے اغیار کوئی آنکھ ملاسکتے؟
منہ تو دیکھو وہ مرے سامنے آسکتے ہیں؟
یاں و آتش نفساں ہیں کہ ابھریں آہ تو جھٹ
آگ دامان شفق کو بھی لگا سکتے ہیں
سوچئے توسہی ہٹ دھرمی نہ کیجئے صاحب
چٹکیوں میں مجھے کب آپ اڑا سکتے ہیں
حضرت دل تو بگاڑ آئے ہیں اس سے لیکن
اب بھی ہم چاہیں تو پھر بات بنا سکتے ہیں
شیخی اتنی نہ کر اے شیخ کہ رندان جہاں
انگلیوں پر تجھے چاہیں تو نچا سکتے ہیں
farah ejaz
Copy
فطرت کے برخلاف جاکر دیکھ آئے ہم
فطرت کے برخلاف جاکر دیکھ آئے ہم
اپنی سوچ سے ہٹ کر کچھ کام کر آئے ہم
زات پر گراں گزرتا ہے جو لمحہ اکثر
اسی کو ان چاہے کچھ لوگوں کے سات گزار آئے ہم
سارے احساسات پر برف سی گرادی ہے
کچھ اس طرح شوریدہ جذبوں کو بجھا آئے ہم
تیرے ہونے نہ ہونے سے ہمیں کیا فرق پڑتا
تیرے قرب سے اور غم کیوں اٹھائیں اتنے ہم
وعدہ جو ایفاء نہیں ہوا اسی کا غم بہت تھا ہمیں
اب نئے سرے سے عہدوپیماں کیوں باندھے ہم
سوچ کے دھارے ایک ہی سمت سے بہہ نکلے تو
ان کا راستہ کئی راستوں میں بدل آئے ہم
فسانہ سا لگتی تھی زندگی کبھی ہمیں بھی اپنی
آج ہی اسے حقیقت سے روشناس کر آئے ہم
farah ejaz
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets