✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Fida Sherazi
Search
Add Poetry
Poetries by Fida Sherazi
راحت قلب و جاں اُڑانے کو
راحت قلب و جاں اُڑانے کو
ہم ملے ہیں بھرے زمانے کو
رقص ماہتاب ہم نے دیکھا ہے
دل کی دھڑکن کے آزمانے کو
اک زمانہ ہوا ہے خانہ خراب
ان کی نظروں میں گھر بسانے کو
دل کی دھڑکن سے پائلوں کی صدا
روز اُٹھتی ہے دل دُکھانے کو
سب کی نظریں ہیں ان کے چہرے پر
ہم بچے ہیں نظر جھکانے کو
کیا ہے زنجیر زلف کا عالم
ہم ہی جکڑے ہیں پیچ کھانے کو
اب کے تعظیم کو نہیں جاناں
سر جھکایا ہے سر کٹانے کو
اس آنا ہی گر نہیں تو فدا
آگ لگ جائے آشیانے کو
Fida Sherazi
Copy
سر سے سرک رہا ہے دوپٹہ سنبھالئے
سر سے سرک رہا ہے دوپٹہ سنبھالئے
جاناں ہمیں نہ اور مصیبت میں ڈالئے
روشن جبیں ہیں آپ کی مانند آفتاب
زلفوں کو مت بکھیریے دن کو نہ ڈھالئے
کچھ بھی طلب نہیں ہمیں بزم جہاں سے
اک جام اور دیجئے پھر جاں نکالئے
ملنا نہیں تو پہلے سا اک عہد ہی سہی
کچھ تو خیال کیجئے یوں تو نہ ٹالئے
رنگ قضا کو دیکھ کے تقدیر رو پڑی
قبر فدا پہ موت نے آنسو بہا لئے
Fida Sherazi
Copy
لڑکیاں
دیکھتے ہیں جب سرِراہ آتی جاتی لڑکیاں
ہیں ادائے دلفریبی سے لبھاتی لڑکیاں
لوٹتی ہیں دل کی بستی سے ہر اک رنگِ حیات
چاہتوں کے گیت گا کر مسکراتی لڑکیاں
بیٹھتے ہیں کاسہ صد تشنگی ہم بھی لئے
دیکھتے جب کبھی کھلکھلاتی لڑکیاں
چھوڑتی ہیں خود سرِراہ اک نئے انداز سے
ہاتھ میں ہاتھوں کو ڈالے آزماتی لڑکیاں
بزمِ انجم سے نکل کر دیکھتے ہیں دور تک
رات کی تاریکیوں میں جاتی جاتی لڑکیاں
لونگ، کنگن نہ سہی کاغذ کا ٹکڑا ہی سہی
ڈوھونڈ کے لاتے ہمی کچھ تو گنواتی لڑکیاں
ہٹ ذرا اے ساقی مے خانہ ہم بھی دیکھ لیں
میکدے کی مستیوں میں لڑکھڑاتی لڑکیاں
میرغالب درد کے سب درد چھٹ جاتے اگر
محفلوں میں بن سنور کے آتی جاتی لڑکیاں
نغمہ دلگیر ہم نے لکھ دیا لیکن اِسے
لطف آتا محفلوں میں گنگناتی لڑکیاں
دل کے اوپر ہی سجاتے ساغر و مینا فدا
گر شرابوں میں شرابیں خود ملاتی لڑکیاں
Fida Sherazi
Copy
وہ بے مثال ہی حسن و جمال رکھتا ہے
وہ بے مثال ہی حسن و جمال رکھتا ہے
خزاں کی رُت کو مصیبت میں ڈال رکھتا ہے
چلے جو وہ نجومی بھی زائچے دیکھیں
زمین پر بھی ستاروں کی چال رکھتا ہے
وہ جس کا سامنا کرنے سے چاند گھبرائے
رُخِ نفیس پہ سورج سے گال رکھتا ہے
صبا بھی ساتھ سلیقے کے چھیڑتی ہے اُسے
وہ موسمِ گلِ لالہ کی فال رکھتا ہے
ہے اُس کی مست طبیعت وہ خوش سخن بھی تو ہے
جو لفظ لفظ سے گوہر نکال رکھتا ہے
گلوں کے رس پہ پلی تتلیاں بھی رشک کریں
وہ جب بھی شانوں پہ ریشم کی شال رکھتا ہے
وہ تیری روح کا مالک نہ تیرے جسم کا ہے
فدا تُو دھول بھی جس کی سنبھال رکھتا ہے
Fida Sherazi
Copy
شراب عشق
شراب عشق پلاؤ بڑا اندھیرا ہے
نظر نظر سے ملاؤ بڑا اندھیرا ہے
بس ایک لمس کی حدت سے روشنی پھیلے
تم اپنا ہاتھ بڑھاؤ بڑا اندھیرا ہے
کہاں سے دامن صحرا میں آفتاب اُترے
ذرا سی زلف ہٹاؤ بڑا اندھیرا ہے
نگاہ یار سے پیہم جو مئے چھلکتی ہے
اُسی سے جام بناؤ بڑا اندھیرا ہے
پیامبر کی زبانی پیام کیا دیتے
ہمیں نہ اور رلاؤ بڑا اندھیرا ہے
جلا کے اپنے ہی ہاتھوں سے خاک کر ڈالا
نہ دل کی راکھ اُڑاؤ بڑا اندھیرا ہے
تمہیں جو میری طلب ہی نہیں تو جان فدا
مجھے بھی تم نہ ستاؤ بڑا اندھیرا ہے
Fida Sherazi
Copy
پھر کسی روز ملو
رات پھر ٹوٹ گیا میرے خوابوں کا نقاب
رات پھر میں نے تصور میں تجھے جان لیا
تیرے ہونٹوں کی ہنسی تیرے حسین لب کا ملاپ
جیسے اُجڑے ہوئے باغوں میں کوئی کھلتا گلاب
رُخ پہ جلتے ہوئے انگاروں کی سی لالی اور تپش
ہاتھ چھو کر بھی کئی بار جلائے میں نے
تو نے جُوڑے بندھی زلفوں کو جو آزادی دی
تیرے شانوں پہ بکھر آئے حسین ساز کے تار
میں نے انگلی کی شرارت سے سراہا جو انہیں
چھڑ گیا خود ہی سے دیپک کی طرح کوئی سا راگ
میرا ماتھا بھی پسینے میں شرابور ہوا
تیرے ہونٹوں کے کناروں پہ بھی شبنم پھیلی
میری آنکھوں میں بھی تسکین کی مستی آئی
تیری آنکھوں میں بھی گلرنگ سے ڈورے پھیلے
تیرے لب میرے لبوں میں جونہی پیوست ہوئے
میرے مخمور بدن میں وہ حرارت آئی
میں نے خود اپنے بدن کو ایسے بے باک کیا
تو نے پھر اپنے گریبان کو صد چاک کیا
تیرے تن میرے بدن میں ایسی مستی آئی
راستے خود ہی سے پاتال کے کھلتے ہی گئے
ہوش اُڑتے ہی گئے جسم ملتے ہی گئے
خواب پھر خواب، حقیقت کو فسانہ نہ کرو
پھر کسی روز ملو، پھر کسی روز ملو
Fida Sherazi
Copy
دل لگی نہیں کرتے
جان من! جان من
کون تیری چاہت کے
گیت گنگنائے گا
کون مست نظروں کے
زائچے بنائے گا
کون تیری آہٹ کو
نغمہ گیر لکھے گا
کون تیری آنکھوں کو
مثل تیر لکھے گا
کون تیرے ہونٹوں کی
سرخیوں میں گم ہوگا
کون تیرے گالوں کی
مستیوں میں گم ہوگا
کون تیرے بالوں کو
ہاتھ سے سنوارے گا
کون تیری زلفوں میں
پھول کو اتارے گا
سب کی سب حقیقت کو
تم سمجھ رہی ہو پھر
تم نے خود ہی کہہ ڈالا
ساتھ چھوٹ جائے گا
ساتھ چھوٹ جائے تو
قیامتیں گزرتی ہیں
آنسوؤں کے گھونگھٹ میں
ساعتیں بھی جلتی ہیں
تم نے یہ نہیں سوچا
تم نے یہ نہیں جانا
گر سمجھ رہی ہو تو
یہ بھی ذہن میں رکھنا
جسم کو روح سے
خود جدا نہیں کرتے
دل لگی نہیں کرتے
دل لگی نہیں کرتے
Fida Sherazi
Copy
شام ڈھلے
بے چین سے ہم بھی رہتے ہیں
آرام کہاں اس بستی میں
ہم نگر نگر کے باسی ہیں
ہر روز تڑپتے رہتے ہیں
ہر روز بدلتے رہتے ہیں
عنوان میری سب نظموں کے
بے ربط ادائیں کیا جانیں
اس پیار بھرے سے جذبے کو
جس پیار میں ہم بھی رہتے ہیں
کچھ گم صم سے کچھ چنچل سے
اب اور نہیں تو جذبوں میں
کچھ تھوڑی دیر تو ساتھ چلو
چاہت کی ضرورت کو سمجھو
کسی روز ملو ہمیں شام ڈھلے
Fida Sherazi
Copy
پگلی
ساہو گوٹھ سراب کی پگلی
ساہو گوٹھ کے میدانوں میں
شام ڈھلے تو آ جاتی ہے
مٹی کی آغوش میں بیٹھے
مٹی میں لتھڑے ہاتوں سے
سابق لفظ مٹا جاتی ہے
انگلی کے نازک ماتھے سے
نئے لفظ جگا جاتی ہے
شاید وہ تاریخ ہے لکھتی
اپنے بیتے سالوں کی
جس میں وہ اک شہ زادی تھی
خوابوں اور خیالوں کی
اپنے نازک ماضی میں وہ
ہر لمحہ خاموش تھی رہتی
سوچوں میں پرجوش تھی رہتی
چادر میں روپوش تھی رہتی
جب آئینہ دیکھ کے آتی
چادر سے پھر منہ کو چھپانی
ہر لمحہ ایسے شرماتی
کوئی اس کو دیکھ رہا ہو
وہ سندر ساہو کی پگلی
جو دن بھر کو پھول تھی چنتی
رات کی آنکھ میں خواب تھی بنتی
خود ہی گیت بہار کے گا کر
خود اپنی آواز کو سنتی
کون جانے وہ کیسی تھی
پھول بہار کے جیسی تھی
خواہش کی رنگین سی دنیا
میں تن تنہا رہتی تھی
جانے پھر کیوں اس دنیا نے
اس کے سوہنے من کو توڑا
درد کے سب پیوند لگا کر
اس کا رشتہ غم سے جوڑا
Fida Sherazi
Copy
تم میرے ہو
کچھ ربط نہیں اب جذبوں میں
کچھ ضبط نہیں ان نظموں میں
باربط کہانی لکھنی ہے
کچھ سوچ مقدس ٹھہری ہے
پھر فکر کے ہر اک آنگن میں
کچھ رابطے ہیں کچھ ضابطے ہیں
ہم چاہت دیس کے باسی ہیں
ہر روز سنورتے رہتے ہیں
ہر روز نکھرتے رہتے ہیں
کبھی گلشن میں کبھی بستی میں
کبھی فکر کی ہر اک مستی میں
کچھ لفظ مہک سے جاتے ہیں
کچھ ہم ترتیب میں لاتے ہیں
ان غزلوں کو ان نظموں کو
ہر سمت محبت پھیلی ہے
چاہت کی حقیقت لکھنی ہے
گر ربط نہ ٹوٹے مستی کا
کچھ ضبط نہ ٹوٹے ہستی کا
ناراض نہ ہو اک بات کہوں
تم میرے ہو تم میرے ہو
Fida Sherazi
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets