Poetries by Ghulam Muhy Ud din Ahber
تبدیلی دا ملک سمبھالنا اساں ملک سمبھالن نکلیں ساں، اساں اپنی کرنی بھُل گئے
چوراں توں مال کڈاناں سی کر آپ کرپشن رُل گئے
اساں آٹا، چینی، دہی، دلیہ، پٹرول تے گیس گھٹانا سی
اساں قرضے وی نئی لینے سی،اساں قرضے لین تے تُل گئے
سانوں بتی بوت روایا اے،، پانی وی کٹ ہی آیا اے
ایتھے گلیاں، نکراں چکڑنیں، اسی کُوڑے دے وچ کُل گئے
مزدور تے آفت آئی اے عیار دی خوب ودھائی اے
سب دعوے وعدے لیڈر دے ہو دیوے وانگوں گُل گئے
انصاف دی اے تے رِیت نئیں توکھے دی کوئی دیت نئیں
ہن کون دلاسا دیوے گا جد وِک سارے بے مُل گئے
میں دیس دی حالت ویکھی تے میرا دِل وی عہبر بھَر آیا
کج خواب سجے سن اکھیاں وچ او خاب نمانے ڈُل گئے Ghulam Muhy ud din
چوراں توں مال کڈاناں سی کر آپ کرپشن رُل گئے
اساں آٹا، چینی، دہی، دلیہ، پٹرول تے گیس گھٹانا سی
اساں قرضے وی نئی لینے سی،اساں قرضے لین تے تُل گئے
سانوں بتی بوت روایا اے،، پانی وی کٹ ہی آیا اے
ایتھے گلیاں، نکراں چکڑنیں، اسی کُوڑے دے وچ کُل گئے
مزدور تے آفت آئی اے عیار دی خوب ودھائی اے
سب دعوے وعدے لیڈر دے ہو دیوے وانگوں گُل گئے
انصاف دی اے تے رِیت نئیں توکھے دی کوئی دیت نئیں
ہن کون دلاسا دیوے گا جد وِک سارے بے مُل گئے
میں دیس دی حالت ویکھی تے میرا دِل وی عہبر بھَر آیا
کج خواب سجے سن اکھیاں وچ او خاب نمانے ڈُل گئے Ghulam Muhy ud din
اکہترواں جشنِ آذادی مبارک ۔ پاکستان، سازشیں ( دیپ) راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ ظلم کے سائے میں اِک چراغ تھا وہ
جس جگہ تُو نے کسی روشنی کو روندا تھا
جس جگہ پھول بھی مسلے تھے تُم نے پاؤں سے
وہ گلستانِ وطن جو تیرا گھروندا تھا
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ پہ ہے لہو قوم کی وفاؤں کا
جس جگہ بوریا ہے آج بھی جفاؤں کا
میرے بوڑھے اسی مٹی کے تلے دبتے رہے
میرے جوان بھی دھرتی کے لئے کٹتے رہے
ٓآج پھِر تُو نے اس زمین پر وہ کام کِیا
بناکے سازشیں حقیقتوں کا نام دِیا
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ تیری طبیعت نے تُجھ کو روکا تھا
تیرے ضمیر نے بے چارگی میں ٹوکا تھا
تُو بے ضمیر رہا دشمنوں کو ہاں کردی
سِتم ظریفی زمانے میں یوں عیاں کردی
یہ تیرا ظلم بھی تیری طرح کھلونا ہے
تُجھے عہبر رہِ حساب پیش ہونا ہے
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں Ghulam Muhy ud din
جس جگہ ظلم کے سائے میں اِک چراغ تھا وہ
جس جگہ تُو نے کسی روشنی کو روندا تھا
جس جگہ پھول بھی مسلے تھے تُم نے پاؤں سے
وہ گلستانِ وطن جو تیرا گھروندا تھا
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ پہ ہے لہو قوم کی وفاؤں کا
جس جگہ بوریا ہے آج بھی جفاؤں کا
میرے بوڑھے اسی مٹی کے تلے دبتے رہے
میرے جوان بھی دھرتی کے لئے کٹتے رہے
ٓآج پھِر تُو نے اس زمین پر وہ کام کِیا
بناکے سازشیں حقیقتوں کا نام دِیا
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ تیری طبیعت نے تُجھ کو روکا تھا
تیرے ضمیر نے بے چارگی میں ٹوکا تھا
تُو بے ضمیر رہا دشمنوں کو ہاں کردی
سِتم ظریفی زمانے میں یوں عیاں کردی
یہ تیرا ظلم بھی تیری طرح کھلونا ہے
تُجھے عہبر رہِ حساب پیش ہونا ہے
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں Ghulam Muhy ud din
ننھی سی خواہش میری ننھی سی خواہش ہے
کہ اب تُم لوٹ بھی آئو
تُم آنے سے ذرا پہلے بتا دینا
مجھے کُچھ پھُول لینے ہیں
ذرا بننا سنورنا ہے
مجھے کُچھ کام کرنے ہیں
تمہیں اچھے سے مِلنا ہے
کہ صدیاں ہوگئیں اب تو
زمانے ہوگئے اب تو
تمہیں دیکھا نہ بھالا ہے
تُم آنے سے ذرا پہلے بتا دینا
مجھے پلکیں جھُکانی ہیں
مجھے بازو پھیلانے ہیں
مجھے کچھ رقص کرنا ہے
میں یوں محوِ تمنا ہوں
کہ جیسے آرہے ہو تُم
میری ننھی سی خواہش ہے
کہ اب تُم لوٹ بھی آئو
Ghulam Muhy ud din
کہ اب تُم لوٹ بھی آئو
تُم آنے سے ذرا پہلے بتا دینا
مجھے کُچھ پھُول لینے ہیں
ذرا بننا سنورنا ہے
مجھے کُچھ کام کرنے ہیں
تمہیں اچھے سے مِلنا ہے
کہ صدیاں ہوگئیں اب تو
زمانے ہوگئے اب تو
تمہیں دیکھا نہ بھالا ہے
تُم آنے سے ذرا پہلے بتا دینا
مجھے پلکیں جھُکانی ہیں
مجھے بازو پھیلانے ہیں
مجھے کچھ رقص کرنا ہے
میں یوں محوِ تمنا ہوں
کہ جیسے آرہے ہو تُم
میری ننھی سی خواہش ہے
کہ اب تُم لوٹ بھی آئو
Ghulam Muhy ud din
چلے آئو چلو آئو کہو کُچھ
ذرا دھڑکن ہِلے تو
ذرا سانسیں چلیں تو
چلو تُم یاد کرلو
کسی اچھے سے دِن کو
کہ جب ہم ہنس رہے ہوں
یا جیسے اُڑ رہے ہوں
کوئی ننھا ساسپنا
جو میں نے بُن رکھا ہو
وہی تُم سن رہے ہو
برابر کھِل رہے ہو،،
تمہیں میں دیکھتا ہوں
کہ تُم شرما رہے ہو
کوئی بھی دیکھ لے گا
یہ تُم فرما رہے ہو
نہ گھبرائو جہاں سے
کہ ہم تُم ایک جاں ہیں
چلے آئو کہو کُچھ
کہ پھر سے جاں میں جاں ہو
سُہانا یہ سماں ہو,,,
تمہیں بتلائوں عہبر
زمانے کے قواعد
نہیں ہیں ہم پہ لاگوُ
کہ ہم تُم ایک جاں ہیں
چلو آئو کہو کُچھ Ghulam Muhy ud din
ذرا دھڑکن ہِلے تو
ذرا سانسیں چلیں تو
چلو تُم یاد کرلو
کسی اچھے سے دِن کو
کہ جب ہم ہنس رہے ہوں
یا جیسے اُڑ رہے ہوں
کوئی ننھا ساسپنا
جو میں نے بُن رکھا ہو
وہی تُم سن رہے ہو
برابر کھِل رہے ہو،،
تمہیں میں دیکھتا ہوں
کہ تُم شرما رہے ہو
کوئی بھی دیکھ لے گا
یہ تُم فرما رہے ہو
نہ گھبرائو جہاں سے
کہ ہم تُم ایک جاں ہیں
چلے آئو کہو کُچھ
کہ پھر سے جاں میں جاں ہو
سُہانا یہ سماں ہو,,,
تمہیں بتلائوں عہبر
زمانے کے قواعد
نہیں ہیں ہم پہ لاگوُ
کہ ہم تُم ایک جاں ہیں
چلو آئو کہو کُچھ Ghulam Muhy ud din
ارادتاََ اب چلا ہوں جانبِ منزل میں تنہا روک لو۔
آندھیولہروطوفانومیرے رستے کے پہاڑو
اب چلا ہوں جانبِ منزِل میں تنہا روک لو۔
چھُپ نہیں سکتی حقیقت لاکھ پہرے لاکھ پردے لاکھ جھوٹے لفظ باندھو
آئینہ دکھلا رہا ہے داغ سارے دھُول ساری
منہ چھپا لینے سے اصلیت نہیں معدوم ہوتی
ہاںمگر
انسان کی ہستی میں انا اور مکر بازﺅوں میں چھُپ سا جاتا ہے
اور وہ بازو ہٹاﺅ تو سمندر کو بہت گہرا بہت آزاد پاﺅ گے
اب چلا ہوں جانبِ منزل میں تنہا روک لو
میں سیاحت کا بڑا شوقین چہروں پر بدلتے زاویوں میں سفر کرت
واہ کرتا مُسکُرات چھوڑ دیتپھر سے چلت تیز چلت
راستوں کو میت کرت اہلِ دِل سے پریت کرت
لفظ پر پہرے نا ہوں تو سچ اُگلت
اب چلا ہوں جانبِ منزل میں تنہا روک لو
آندھیولہروطوفانومیرے رستے کے پہاڑو
اب چلا ہوں جانبِ منزِل میں تنہا روک لو۔
Ghulam Muhy Ud Din
آندھیولہروطوفانومیرے رستے کے پہاڑو
اب چلا ہوں جانبِ منزِل میں تنہا روک لو۔
چھُپ نہیں سکتی حقیقت لاکھ پہرے لاکھ پردے لاکھ جھوٹے لفظ باندھو
آئینہ دکھلا رہا ہے داغ سارے دھُول ساری
منہ چھپا لینے سے اصلیت نہیں معدوم ہوتی
ہاںمگر
انسان کی ہستی میں انا اور مکر بازﺅوں میں چھُپ سا جاتا ہے
اور وہ بازو ہٹاﺅ تو سمندر کو بہت گہرا بہت آزاد پاﺅ گے
اب چلا ہوں جانبِ منزل میں تنہا روک لو
میں سیاحت کا بڑا شوقین چہروں پر بدلتے زاویوں میں سفر کرت
واہ کرتا مُسکُرات چھوڑ دیتپھر سے چلت تیز چلت
راستوں کو میت کرت اہلِ دِل سے پریت کرت
لفظ پر پہرے نا ہوں تو سچ اُگلت
اب چلا ہوں جانبِ منزل میں تنہا روک لو
آندھیولہروطوفانومیرے رستے کے پہاڑو
اب چلا ہوں جانبِ منزِل میں تنہا روک لو۔
Ghulam Muhy Ud Din
میرا وطن رو رہا ہے میرا وطن رو رہا ہے
اے قوم کے جوانو
اے پاکباز بیٹیو
قائد نے تمہارے سر ڈھکنے کے لئے یہ سائباں بنایا تھا
یہ کون ہے جو تم کو نچاتا ہے سرِ عام
اے قوم کے بیٹو
اس پُختہ عمارت کے مُحافظ تھے مگر اب
کیوں اس کو ہی ڈھانے پے تُلے ہو یہ بتائو
میرا وطن زخمی ہے
یلغار کی ذد میں ہیں آئین اور قانون
اے قوم کے جوانو
ذرا سمجھو ذرا سوچو
جو مُلک تھا قائد کا کیا وہ ٹھیک نہیں ہے
کیوں چاہتے ہو پھر سے اک غلام پاکستان Ghulam Muhy Ud Din
اے قوم کے جوانو
اے پاکباز بیٹیو
قائد نے تمہارے سر ڈھکنے کے لئے یہ سائباں بنایا تھا
یہ کون ہے جو تم کو نچاتا ہے سرِ عام
اے قوم کے بیٹو
اس پُختہ عمارت کے مُحافظ تھے مگر اب
کیوں اس کو ہی ڈھانے پے تُلے ہو یہ بتائو
میرا وطن زخمی ہے
یلغار کی ذد میں ہیں آئین اور قانون
اے قوم کے جوانو
ذرا سمجھو ذرا سوچو
جو مُلک تھا قائد کا کیا وہ ٹھیک نہیں ہے
کیوں چاہتے ہو پھر سے اک غلام پاکستان Ghulam Muhy Ud Din
انقلاب آزادی دھرنے اے قائدِ اعظم تیرے اس مُلک پہ پھر سے
مغرب کی ہوا آرہی ہے منجمند کرنے
اخلاق و اقدار سبھی خرد برد کرنے
اک جنگ کا ماحول ہے برپا ہر اک جانب
ہم آگئے ہیں اپنی ریاست سے ہی لڑنے
اے پاک فوج تیری ضرورت ہے ہمیں اب
کمزور کر رہے ہیں معیشت کو یہ دھرنے
اب اور ظلم دیکھنے کی نا رہی طاقت
اللہ بتا دے کہاں پہ جائیں ہم مرنے
Ghulam Muhy Ud Din
مغرب کی ہوا آرہی ہے منجمند کرنے
اخلاق و اقدار سبھی خرد برد کرنے
اک جنگ کا ماحول ہے برپا ہر اک جانب
ہم آگئے ہیں اپنی ریاست سے ہی لڑنے
اے پاک فوج تیری ضرورت ہے ہمیں اب
کمزور کر رہے ہیں معیشت کو یہ دھرنے
اب اور ظلم دیکھنے کی نا رہی طاقت
اللہ بتا دے کہاں پہ جائیں ہم مرنے
Ghulam Muhy Ud Din
اب میرے وطن کو جینے کو دِل خون کے آنسو رویا ہے
آنکھوں کی نیند بھی روٹھی ہے
جو چین سے گھر میں سوتے ہیں
وہ ہم سے اکثر کہتے ہیں
عہبر کہ تم تو پاگل ہو۔۔
میں پاگل ہوں ،، میں پاگل ہوں
پر میرے وطن کی مٹی سے
مجھ کو ہر طور عقیدت ہے
اس میں سب رہنے والوں سے
مجھ کو ہر آن محبت ہے
یہ ظلم کا قصہ ٹھیک نہیں
یہ ضد یہ تماشا بند کرو
اب میرے وطن کو جینے دو
اب میرے وطن کو جینے کو
Ghulam Muhy Ud Din
آنکھوں کی نیند بھی روٹھی ہے
جو چین سے گھر میں سوتے ہیں
وہ ہم سے اکثر کہتے ہیں
عہبر کہ تم تو پاگل ہو۔۔
میں پاگل ہوں ،، میں پاگل ہوں
پر میرے وطن کی مٹی سے
مجھ کو ہر طور عقیدت ہے
اس میں سب رہنے والوں سے
مجھ کو ہر آن محبت ہے
یہ ظلم کا قصہ ٹھیک نہیں
یہ ضد یہ تماشا بند کرو
اب میرے وطن کو جینے دو
اب میرے وطن کو جینے کو
Ghulam Muhy Ud Din
الودع سُدھ بُدھ نہیں ہے آج ذرا بھی
تُم کو پُکاروً تم کو روکوں۔۔؟
کیا کر دیکھوں تم نا جائو
کیا کر بیٹھوں تم نا جائو
دیوانہ ہوں کیا بتلائوں
میں کیا سمجھوں کیا سمجھائوں
کَس کو بتائوں کس سے چھُپائوں
خود سے۔۔۔؟
تم سے۔۔۔؟
کیسے ہوگا۔۔۔؟
کیسے روکوں آنسوں اپنے
آنکھوں کو کیسے سمجھائوں
تم ہی بتائو کیسے چھُپائوں
لِکھنا پڑے گا۔۔۔۔!
پیار کرو تو جانے والا
پھر نا لوٹ کے آنے والا
خنجر خنجر کر جاتا ہے
روح پہ وار چلا جاتا ہے
دل کے ٹکڑ� کر جاتا ہے
اندر والا مر جاتا ہے
تیرے لئے ہیں لاکھ دُعائیں
اپنے گھر میں خوشیاں پائے
میں تمکو آواز نا دوںگا
تم چھُپ کر آجانا مِلنے
اگر کبھی تم بہتر سمجھو
عہبر کو مہکاتے جانا
سُندر مُکھ دکھلاتے جانا Ghulam Muhy ud Din
تُم کو پُکاروً تم کو روکوں۔۔؟
کیا کر دیکھوں تم نا جائو
کیا کر بیٹھوں تم نا جائو
دیوانہ ہوں کیا بتلائوں
میں کیا سمجھوں کیا سمجھائوں
کَس کو بتائوں کس سے چھُپائوں
خود سے۔۔۔؟
تم سے۔۔۔؟
کیسے ہوگا۔۔۔؟
کیسے روکوں آنسوں اپنے
آنکھوں کو کیسے سمجھائوں
تم ہی بتائو کیسے چھُپائوں
لِکھنا پڑے گا۔۔۔۔!
پیار کرو تو جانے والا
پھر نا لوٹ کے آنے والا
خنجر خنجر کر جاتا ہے
روح پہ وار چلا جاتا ہے
دل کے ٹکڑ� کر جاتا ہے
اندر والا مر جاتا ہے
تیرے لئے ہیں لاکھ دُعائیں
اپنے گھر میں خوشیاں پائے
میں تمکو آواز نا دوںگا
تم چھُپ کر آجانا مِلنے
اگر کبھی تم بہتر سمجھو
عہبر کو مہکاتے جانا
سُندر مُکھ دکھلاتے جانا Ghulam Muhy ud Din
ضربِ عضب میرے مُلک کے فوجی جوان
میری سرحدوں کے مُحافظ
ہمارے لئے جان نثار کرنے والےہمارے بھائی
ہماری خاطر دُشمن کی صفوں میں گھُس کر
اُ ن کا قلع قمع کرنے والے غازی
جنگلوں ، پہاڑوں ، سمندروں ،فضائوں میں میرے اللہ کے نمازی
اے فرشتو نُور برسائو
میرے مُجاہد جان ہتھیلی پر لئے
مُلک و قوم کی عزت آبرو بچانے نکلے ہیں Ghulam Muhy ud Din
میری سرحدوں کے مُحافظ
ہمارے لئے جان نثار کرنے والےہمارے بھائی
ہماری خاطر دُشمن کی صفوں میں گھُس کر
اُ ن کا قلع قمع کرنے والے غازی
جنگلوں ، پہاڑوں ، سمندروں ،فضائوں میں میرے اللہ کے نمازی
اے فرشتو نُور برسائو
میرے مُجاہد جان ہتھیلی پر لئے
مُلک و قوم کی عزت آبرو بچانے نکلے ہیں Ghulam Muhy ud Din
شبِ برات شب برات ہے نجاتِ ہر مومن
اے خُدا حضرتِ انساں کا ہدایت دیدے
کل جو اُتری تھی مدیدے میں محبت بن کر
وہ مِثالِ بنو ہاشم سی عنایت دیدے
اے خُدا مُلک میں جو اِنتشار پھیلا ہے
تُو اُسے صُلحِ ہمیشہ کی روایت دیدے
میرے حاکم کو تُو مُفلس کا نگہبان بنا
ہر خُداداد کو ہر لمحہ سخاوت دیدے
بھائی چارہ میری دُنیا کا ہو معمول عہبر
اپنے بندوں کو یوں اآپس میں اُخوت دیدے
Ghulam Muhy ud Din
اے خُدا حضرتِ انساں کا ہدایت دیدے
کل جو اُتری تھی مدیدے میں محبت بن کر
وہ مِثالِ بنو ہاشم سی عنایت دیدے
اے خُدا مُلک میں جو اِنتشار پھیلا ہے
تُو اُسے صُلحِ ہمیشہ کی روایت دیدے
میرے حاکم کو تُو مُفلس کا نگہبان بنا
ہر خُداداد کو ہر لمحہ سخاوت دیدے
بھائی چارہ میری دُنیا کا ہو معمول عہبر
اپنے بندوں کو یوں اآپس میں اُخوت دیدے
Ghulam Muhy ud Din
کراچی ائر پورٹ حملے کے دہشت گردوں کو مار گرانے پر پاک فوج کو سلام۔۔ ہم آزادی کے متوالے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
ظلم کا رستہ روکنے والے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
قوم نا اپنی بکھرنے دیں گے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
مُلک کو یوں نا بٹنے دیں گے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
دُشمن کو نا پلنے دیں گے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
علم و امن کے خواہاں ہیں ہم
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
اہلِ عَلَم یہ نعرہ لگائو
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
قدم بڑھائو قدم بڑھائو
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں Ghulam Muhy Ud Din
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
ظلم کا رستہ روکنے والے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
قوم نا اپنی بکھرنے دیں گے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
مُلک کو یوں نا بٹنے دیں گے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
دُشمن کو نا پلنے دیں گے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
علم و امن کے خواہاں ہیں ہم
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
اہلِ عَلَم یہ نعرہ لگائو
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
قدم بڑھائو قدم بڑھائو
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں Ghulam Muhy Ud Din
معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم خوشی منائو نبی عرش کے مہمان ہوئے
خُدا کے روبرو دونوں جہاں کی جان ہوئے
بُراق مچلتا پھرتا تھا ارد گرد اُن کے
سُکون اُسکا ہوئے آپ اُسکا مان ہوئے
صفاتِ عرش بھی جلوہ گری پہ نازاں ہیں
نعلینِ پاک کے اُس پر بھی تو نشان ہوئے
نبی تمام اِمامت کے مُنتظر ٹھہرے
شایانِ شان ہے اُن کے کہ وہ ذیشان ہوئے
نظرِ جبرئیل نے حیرت سے یہ منظر دیکھا
جہاں مکاں نہیں اُن کے وہاں مکان ہوئے
آج مقبول دُعا سب کی ہے آقا کے طُفیل
وہ خوش ہیں ، پہلے جو عہبر تھے پریشان ہوئے Ghulam Muhy Ud Din
خُدا کے روبرو دونوں جہاں کی جان ہوئے
بُراق مچلتا پھرتا تھا ارد گرد اُن کے
سُکون اُسکا ہوئے آپ اُسکا مان ہوئے
صفاتِ عرش بھی جلوہ گری پہ نازاں ہیں
نعلینِ پاک کے اُس پر بھی تو نشان ہوئے
نبی تمام اِمامت کے مُنتظر ٹھہرے
شایانِ شان ہے اُن کے کہ وہ ذیشان ہوئے
نظرِ جبرئیل نے حیرت سے یہ منظر دیکھا
جہاں مکاں نہیں اُن کے وہاں مکان ہوئے
آج مقبول دُعا سب کی ہے آقا کے طُفیل
وہ خوش ہیں ، پہلے جو عہبر تھے پریشان ہوئے Ghulam Muhy Ud Din
میرا کمرہ اب آیا ہوں میں کمرے میں
جب کہ رات بھی گُزر چُکی ہے
جب کہ دن بھی سر پہ کھڑا ہے
بستر تکیہ بِکھرا پڑا ہے
رات کو آندھی تیز اُڑی ہے
ہر کاغذ پر دھول جمی ہے
کیا لِکھوں کیا بولوں؟ بولو۔۔۔۔؟؟؟
تُم آو دروازہ کھولو
یا یہ بتاو کدھر کو جاؤں
گہری سوچ میں گھرا ہوا ہوں
سووں؟ جاگوں؟ یا مر جاؤں
اب آیا ہوں میں کمرے میں
اب میں عہبر کدھر کو جاؤں Ghulam Muhy Ud Din
جب کہ رات بھی گُزر چُکی ہے
جب کہ دن بھی سر پہ کھڑا ہے
بستر تکیہ بِکھرا پڑا ہے
رات کو آندھی تیز اُڑی ہے
ہر کاغذ پر دھول جمی ہے
کیا لِکھوں کیا بولوں؟ بولو۔۔۔۔؟؟؟
تُم آو دروازہ کھولو
یا یہ بتاو کدھر کو جاؤں
گہری سوچ میں گھرا ہوا ہوں
سووں؟ جاگوں؟ یا مر جاؤں
اب آیا ہوں میں کمرے میں
اب میں عہبر کدھر کو جاؤں Ghulam Muhy Ud Din