✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Ghulam Muhy Ud din Ahber
Search
Add Poetry
Poetries by Ghulam Muhy Ud din Ahber
تبدیلی دا ملک سمبھالنا
اساں ملک سمبھالن نکلیں ساں، اساں اپنی کرنی بھُل گئے
چوراں توں مال کڈاناں سی کر آپ کرپشن رُل گئے
اساں آٹا، چینی، دہی، دلیہ، پٹرول تے گیس گھٹانا سی
اساں قرضے وی نئی لینے سی،اساں قرضے لین تے تُل گئے
سانوں بتی بوت روایا اے،، پانی وی کٹ ہی آیا اے
ایتھے گلیاں، نکراں چکڑنیں، اسی کُوڑے دے وچ کُل گئے
مزدور تے آفت آئی اے عیار دی خوب ودھائی اے
سب دعوے وعدے لیڈر دے ہو دیوے وانگوں گُل گئے
انصاف دی اے تے رِیت نئیں توکھے دی کوئی دیت نئیں
ہن کون دلاسا دیوے گا جد وِک سارے بے مُل گئے
میں دیس دی حالت ویکھی تے میرا دِل وی عہبر بھَر آیا
کج خواب سجے سن اکھیاں وچ او خاب نمانے ڈُل گئے
Ghulam Muhy ud din
Copy
اکہترواں جشنِ آذادی مبارک ۔ پاکستان، سازشیں ( دیپ)
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ ظلم کے سائے میں اِک چراغ تھا وہ
جس جگہ تُو نے کسی روشنی کو روندا تھا
جس جگہ پھول بھی مسلے تھے تُم نے پاؤں سے
وہ گلستانِ وطن جو تیرا گھروندا تھا
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ پہ ہے لہو قوم کی وفاؤں کا
جس جگہ بوریا ہے آج بھی جفاؤں کا
میرے بوڑھے اسی مٹی کے تلے دبتے رہے
میرے جوان بھی دھرتی کے لئے کٹتے رہے
ٓآج پھِر تُو نے اس زمین پر وہ کام کِیا
بناکے سازشیں حقیقتوں کا نام دِیا
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
جس جگہ تیری طبیعت نے تُجھ کو روکا تھا
تیرے ضمیر نے بے چارگی میں ٹوکا تھا
تُو بے ضمیر رہا دشمنوں کو ہاں کردی
سِتم ظریفی زمانے میں یوں عیاں کردی
یہ تیرا ظلم بھی تیری طرح کھلونا ہے
تُجھے عہبر رہِ حساب پیش ہونا ہے
راستے ممکن ہیں تُجھے پھر سے وہاں لے جائیں
Ghulam Muhy ud din
Copy
آہ
ہر آہ میری جاتی ہے افلاک پہ عہبر
ہر شخص میری زندگی سے کھیل رہا ہے
Ghulam Muhy ud din
Copy
التجا ببارگاہ مولا علی علیہ السلام
جنازہ حیدرِ کرار کا پڑھا دِل نے
میرے اندر جلوس نکلا ہے مولا دین کا
میرے مولا صدا کُن کا طلبگار ہے عہبر
مُنافق آج بھی تڑپا رہے ہیں ہم فقیروں کو
Ghulam Muhy ud din
Copy
ننھی سی خواہش
میری ننھی سی خواہش ہے
کہ اب تُم لوٹ بھی آئو
تُم آنے سے ذرا پہلے بتا دینا
مجھے کُچھ پھُول لینے ہیں
ذرا بننا سنورنا ہے
مجھے کُچھ کام کرنے ہیں
تمہیں اچھے سے مِلنا ہے
کہ صدیاں ہوگئیں اب تو
زمانے ہوگئے اب تو
تمہیں دیکھا نہ بھالا ہے
تُم آنے سے ذرا پہلے بتا دینا
مجھے پلکیں جھُکانی ہیں
مجھے بازو پھیلانے ہیں
مجھے کچھ رقص کرنا ہے
میں یوں محوِ تمنا ہوں
کہ جیسے آرہے ہو تُم
میری ننھی سی خواہش ہے
کہ اب تُم لوٹ بھی آئو
Ghulam Muhy ud din
Copy
چلے آئو
چلو آئو کہو کُچھ
ذرا دھڑکن ہِلے تو
ذرا سانسیں چلیں تو
چلو تُم یاد کرلو
کسی اچھے سے دِن کو
کہ جب ہم ہنس رہے ہوں
یا جیسے اُڑ رہے ہوں
کوئی ننھا ساسپنا
جو میں نے بُن رکھا ہو
وہی تُم سن رہے ہو
برابر کھِل رہے ہو،،
تمہیں میں دیکھتا ہوں
کہ تُم شرما رہے ہو
کوئی بھی دیکھ لے گا
یہ تُم فرما رہے ہو
نہ گھبرائو جہاں سے
کہ ہم تُم ایک جاں ہیں
چلے آئو کہو کُچھ
کہ پھر سے جاں میں جاں ہو
سُہانا یہ سماں ہو,,,
تمہیں بتلائوں عہبر
زمانے کے قواعد
نہیں ہیں ہم پہ لاگوُ
کہ ہم تُم ایک جاں ہیں
چلو آئو کہو کُچھ
Ghulam Muhy ud din
Copy
ارادتاََ
اب چلا ہوں جانبِ منزل میں تنہا روک لو۔
آندھیولہروطوفانومیرے رستے کے پہاڑو
اب چلا ہوں جانبِ منزِل میں تنہا روک لو۔
چھُپ نہیں سکتی حقیقت لاکھ پہرے لاکھ پردے لاکھ جھوٹے لفظ باندھو
آئینہ دکھلا رہا ہے داغ سارے دھُول ساری
منہ چھپا لینے سے اصلیت نہیں معدوم ہوتی
ہاںمگر
انسان کی ہستی میں انا اور مکر بازﺅوں میں چھُپ سا جاتا ہے
اور وہ بازو ہٹاﺅ تو سمندر کو بہت گہرا بہت آزاد پاﺅ گے
اب چلا ہوں جانبِ منزل میں تنہا روک لو
میں سیاحت کا بڑا شوقین چہروں پر بدلتے زاویوں میں سفر کرت
واہ کرتا مُسکُرات چھوڑ دیتپھر سے چلت تیز چلت
راستوں کو میت کرت اہلِ دِل سے پریت کرت
لفظ پر پہرے نا ہوں تو سچ اُگلت
اب چلا ہوں جانبِ منزل میں تنہا روک لو
آندھیولہروطوفانومیرے رستے کے پہاڑو
اب چلا ہوں جانبِ منزِل میں تنہا روک لو۔
Ghulam Muhy Ud Din
Copy
میرا وطن رو رہا ہے
میرا وطن رو رہا ہے
اے قوم کے جوانو
اے پاکباز بیٹیو
قائد نے تمہارے سر ڈھکنے کے لئے یہ سائباں بنایا تھا
یہ کون ہے جو تم کو نچاتا ہے سرِ عام
اے قوم کے بیٹو
اس پُختہ عمارت کے مُحافظ تھے مگر اب
کیوں اس کو ہی ڈھانے پے تُلے ہو یہ بتائو
میرا وطن زخمی ہے
یلغار کی ذد میں ہیں آئین اور قانون
اے قوم کے جوانو
ذرا سمجھو ذرا سوچو
جو مُلک تھا قائد کا کیا وہ ٹھیک نہیں ہے
کیوں چاہتے ہو پھر سے اک غلام پاکستان
Ghulam Muhy Ud Din
Copy
انقلاب آزادی دھرنے
اے قائدِ اعظم تیرے اس مُلک پہ پھر سے
مغرب کی ہوا آرہی ہے منجمند کرنے
اخلاق و اقدار سبھی خرد برد کرنے
اک جنگ کا ماحول ہے برپا ہر اک جانب
ہم آگئے ہیں اپنی ریاست سے ہی لڑنے
اے پاک فوج تیری ضرورت ہے ہمیں اب
کمزور کر رہے ہیں معیشت کو یہ دھرنے
اب اور ظلم دیکھنے کی نا رہی طاقت
اللہ بتا دے کہاں پہ جائیں ہم مرنے
Ghulam Muhy Ud Din
Copy
اب میرے وطن کو جینے کو
دِل خون کے آنسو رویا ہے
آنکھوں کی نیند بھی روٹھی ہے
جو چین سے گھر میں سوتے ہیں
وہ ہم سے اکثر کہتے ہیں
عہبر کہ تم تو پاگل ہو۔۔
میں پاگل ہوں ،، میں پاگل ہوں
پر میرے وطن کی مٹی سے
مجھ کو ہر طور عقیدت ہے
اس میں سب رہنے والوں سے
مجھ کو ہر آن محبت ہے
یہ ظلم کا قصہ ٹھیک نہیں
یہ ضد یہ تماشا بند کرو
اب میرے وطن کو جینے دو
اب میرے وطن کو جینے کو
Ghulam Muhy Ud Din
Copy
الودع
سُدھ بُدھ نہیں ہے آج ذرا بھی
تُم کو پُکاروً تم کو روکوں۔۔؟
کیا کر دیکھوں تم نا جائو
کیا کر بیٹھوں تم نا جائو
دیوانہ ہوں کیا بتلائوں
میں کیا سمجھوں کیا سمجھائوں
کَس کو بتائوں کس سے چھُپائوں
خود سے۔۔۔؟
تم سے۔۔۔؟
کیسے ہوگا۔۔۔؟
کیسے روکوں آنسوں اپنے
آنکھوں کو کیسے سمجھائوں
تم ہی بتائو کیسے چھُپائوں
لِکھنا پڑے گا۔۔۔۔!
پیار کرو تو جانے والا
پھر نا لوٹ کے آنے والا
خنجر خنجر کر جاتا ہے
روح پہ وار چلا جاتا ہے
دل کے ٹکڑ� کر جاتا ہے
اندر والا مر جاتا ہے
تیرے لئے ہیں لاکھ دُعائیں
اپنے گھر میں خوشیاں پائے
میں تمکو آواز نا دوںگا
تم چھُپ کر آجانا مِلنے
اگر کبھی تم بہتر سمجھو
عہبر کو مہکاتے جانا
سُندر مُکھ دکھلاتے جانا
Ghulam Muhy ud Din
Copy
رمضان المبارک
روشنی کا پیغام
ہر عمل میں جاگا ایمان
لایا رحمتیں اور امن و امان
آیا ماہِ رمضان
غروبِ آفتاب کا انتظار
ہو رہا ہے وقتِ افطار
عبادت کا مزہ ، سکون و اطمینان
سمیٹو رحمتیں برکتیں پڑھو قُرآن
آیا ماہِ رمضان
Ghulam Muhy ud din
Copy
ضربِ عضب
میرے مُلک کے فوجی جوان
میری سرحدوں کے مُحافظ
ہمارے لئے جان نثار کرنے والےہمارے بھائی
ہماری خاطر دُشمن کی صفوں میں گھُس کر
اُ ن کا قلع قمع کرنے والے غازی
جنگلوں ، پہاڑوں ، سمندروں ،فضائوں میں میرے اللہ کے نمازی
اے فرشتو نُور برسائو
میرے مُجاہد جان ہتھیلی پر لئے
مُلک و قوم کی عزت آبرو بچانے نکلے ہیں
Ghulam Muhy ud Din
Copy
شبِ برات
شب برات ہے نجاتِ ہر مومن
اے خُدا حضرتِ انساں کا ہدایت دیدے
کل جو اُتری تھی مدیدے میں محبت بن کر
وہ مِثالِ بنو ہاشم سی عنایت دیدے
اے خُدا مُلک میں جو اِنتشار پھیلا ہے
تُو اُسے صُلحِ ہمیشہ کی روایت دیدے
میرے حاکم کو تُو مُفلس کا نگہبان بنا
ہر خُداداد کو ہر لمحہ سخاوت دیدے
بھائی چارہ میری دُنیا کا ہو معمول عہبر
اپنے بندوں کو یوں اآپس میں اُخوت دیدے
Ghulam Muhy ud Din
Copy
سانحہ کراچی ائر پورٹ کے شہدا کے نام
سینے پہ گولی کھا کے رکھا مُلک کا بھرم
میرے شہیدَ وطن ہے تُجھ کو میرا سلام
Ghulam Muhy ud Din
Copy
کراچی ائر پورٹ حملے کے دہشت گردوں کو مار گرانے پر پاک فوج کو سلام۔۔
ہم آزادی کے متوالے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
ظلم کا رستہ روکنے والے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
قوم نا اپنی بکھرنے دیں گے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
مُلک کو یوں نا بٹنے دیں گے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
دُشمن کو نا پلنے دیں گے
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
علم و امن کے خواہاں ہیں ہم
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
اہلِ عَلَم یہ نعرہ لگائو
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
قدم بڑھائو قدم بڑھائو
ہم ہیں مجاہد ہم ہیں طوفاں
Ghulam Muhy Ud Din
Copy
آخری بار
مثلِ میخانہ خالی ویراں، خاموش ہوں میں
نسیم اُنکی مہک لائو کہ میں کُچھ ہوش کروں
مرگِ صحرا ہے وجود، عطشِ سُخن کو عہبر
اُن کی نظروں سے پِلائو کہ میں کُچھ ہوش کروں
Ghulam Muhy ud Din
Copy
معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم
خوشی منائو نبی عرش کے مہمان ہوئے
خُدا کے روبرو دونوں جہاں کی جان ہوئے
بُراق مچلتا پھرتا تھا ارد گرد اُن کے
سُکون اُسکا ہوئے آپ اُسکا مان ہوئے
صفاتِ عرش بھی جلوہ گری پہ نازاں ہیں
نعلینِ پاک کے اُس پر بھی تو نشان ہوئے
نبی تمام اِمامت کے مُنتظر ٹھہرے
شایانِ شان ہے اُن کے کہ وہ ذیشان ہوئے
نظرِ جبرئیل نے حیرت سے یہ منظر دیکھا
جہاں مکاں نہیں اُن کے وہاں مکان ہوئے
آج مقبول دُعا سب کی ہے آقا کے طُفیل
وہ خوش ہیں ، پہلے جو عہبر تھے پریشان ہوئے
Ghulam Muhy Ud Din
Copy
میرا کمرہ
اب آیا ہوں میں کمرے میں
جب کہ رات بھی گُزر چُکی ہے
جب کہ دن بھی سر پہ کھڑا ہے
بستر تکیہ بِکھرا پڑا ہے
رات کو آندھی تیز اُڑی ہے
ہر کاغذ پر دھول جمی ہے
کیا لِکھوں کیا بولوں؟ بولو۔۔۔۔؟؟؟
تُم آو دروازہ کھولو
یا یہ بتاو کدھر کو جاؤں
گہری سوچ میں گھرا ہوا ہوں
سووں؟ جاگوں؟ یا مر جاؤں
اب آیا ہوں میں کمرے میں
اب میں عہبر کدھر کو جاؤں
Ghulam Muhy Ud Din
Copy
فتنہ پھیلانے والے
بےبسی میں یوں ہی عہبر مُسکُرا دیتا ہوں میں
دیکھ کر اولادِ آدم کو بلا کا فلسفی
Ghulam Muhy ud Din
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets