ہنر بھی سوچے گئے احترام سوچے گئے
ترے فراق میں سارے پیام سوچے گئے
امیر وقت کو روکا تھا کج ادائی سے
تو میرے واسطے بھی انتقام سوچے گئے
تجھے جو ڈھونڈنے نکلے مسافروں کی طرح
کہاں کہاں پہ کیے تھے قیام سوچے گئے
نئے جو عشق مین دیکھے ہیں میں نے رنج والم
تو پہلے عشق کے بھی صبح و شام سوچے گئے
ترے خیال میں لکھ لکھ کے ہوگئی پاگل
تری تمنا میں اتنے کلام سوچے گئے
جو تیری سمت سے ملتے تھے ہم کو اے وشمہ
پیام بر نہ ملے تو پیام سوچے گئے