Poetries by نوید رزاق بٹ
طرحی غزل: پتھروں پر چلتے چلتے "پتھروں پر چلتے چلتے کہکشاں تک آ گئے"
راندہِ درگاہ آخر آسماں تک آ گئے
الحذر اے ہم صفیرو، کچھ تو ہو تدبیرِ ضو
پنجہ ہائے ظلمتِ شب آشیاں تک آ گئے
دیکھیے اُبھریں گے اب تازہ خدا، مذہب نئے
اہلِ دل اہلِ نظر شہرِ بُتاں تک آ گئے
اُن کی محفل سے اُٹھے ہم چار شانوں پر مُنیبؔ
پہلے دل لُوٹا کیے، پھر نقدِ جاں تک آ گئے
ابنِ مُنیب
راندہِ درگاہ آخر آسماں تک آ گئے
الحذر اے ہم صفیرو، کچھ تو ہو تدبیرِ ضو
پنجہ ہائے ظلمتِ شب آشیاں تک آ گئے
دیکھیے اُبھریں گے اب تازہ خدا، مذہب نئے
اہلِ دل اہلِ نظر شہرِ بُتاں تک آ گئے
اُن کی محفل سے اُٹھے ہم چار شانوں پر مُنیبؔ
پہلے دل لُوٹا کیے، پھر نقدِ جاں تک آ گئے
ابنِ مُنیب
بچوں کی نظم: ایک دو تین چار پانچ (انگریزی نرسری رہائم "وَن، ٹو، تھری، فور، فائیو، وَنس آئی کاٹ آ فش الائیو" پر مبنی)
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مہنگی چُوڑی، سستا کانچ
چھ، سات، آٹھ، نو، دس
بھاگ کے ہم نے پکڑی بس
بھاگ کے بس کیوں پکڑی جی؟
چُوڑی واپس کرنی تھی!
واپس ہو گئی چُوڑی کیا؟
چُوڑی والا بھاگ گیا!
- ابنِ مُنیبؔ
دوسرا رنگ:
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مچھلی پکڑی میں نے آج!
چھ ، سات، آٹھ، نو، دس
چھوڑ دیا پھر اُس کو بس!
چھوڑ دیا کیوں اُس کو جی؟
ڈر تھا مجھ کو کاٹے گی!
ڈرتے تھے تو پکڑی کیوں؟
میری مرضی، میں جانوں!
ابنِ مُنیب
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مہنگی چُوڑی، سستا کانچ
چھ، سات، آٹھ، نو، دس
بھاگ کے ہم نے پکڑی بس
بھاگ کے بس کیوں پکڑی جی؟
چُوڑی واپس کرنی تھی!
واپس ہو گئی چُوڑی کیا؟
چُوڑی والا بھاگ گیا!
- ابنِ مُنیبؔ
دوسرا رنگ:
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مچھلی پکڑی میں نے آج!
چھ ، سات، آٹھ، نو، دس
چھوڑ دیا پھر اُس کو بس!
چھوڑ دیا کیوں اُس کو جی؟
ڈر تھا مجھ کو کاٹے گی!
ڈرتے تھے تو پکڑی کیوں؟
میری مرضی، میں جانوں!
ابنِ مُنیب
اُس کو آنا تھا نہ آیا اُس کو آنا تھا نہ آیا، چل بسے نہ دن میں کیوں؟
ہائے قسمت میں ہماری رتجگا اِک اور تھا
ہم نے پایا عقْل کو بھی دائروں کی قید میں
مسئلے کی تہہ میں دیکھا، مسئلہ اِک اور تھا
پوچھتے تھے وہ، "کبھی دیکھا ہے ہم سا بے وفا؟"
ہم حریصِ صد جفا تھے، کہہ دِیا "اِک اور تھا!"
جنگ برپا تھی محبت اور تجسّس میں منیبؔ
اُس کے گھر کے راستے میں راستہ اِک اور تھا ابنِ مُنیب
ہائے قسمت میں ہماری رتجگا اِک اور تھا
ہم نے پایا عقْل کو بھی دائروں کی قید میں
مسئلے کی تہہ میں دیکھا، مسئلہ اِک اور تھا
پوچھتے تھے وہ، "کبھی دیکھا ہے ہم سا بے وفا؟"
ہم حریصِ صد جفا تھے، کہہ دِیا "اِک اور تھا!"
جنگ برپا تھی محبت اور تجسّس میں منیبؔ
اُس کے گھر کے راستے میں راستہ اِک اور تھا ابنِ مُنیب
ہم کو سیرت سے ہے مطلب (معروف مصرعے "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" کے ساتھ ایک تازہ غزل)
ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے
زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں
ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا
فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟
سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب
تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں
یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ
محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں
- ابنِ مُنیبؔ
-----------------------------------
پس نوشت:
انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔
مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے:
ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔
بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا:
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
اِس پر اندھے نے کہا:
مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
فقیر نے کہا:
مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق نے کہا:
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور عالمِ دین کہا:
بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
ابنِ مُنیب
ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے
زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں
ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا
فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟
سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب
تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں
یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ
محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں
- ابنِ مُنیبؔ
-----------------------------------
پس نوشت:
انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔
مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے:
ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔
بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا:
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
اِس پر اندھے نے کہا:
مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
فقیر نے کہا:
مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق نے کہا:
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور عالمِ دین کہا:
بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
ابنِ مُنیب
من از کجا (مولانا رومی کے شعر "من از کجا،پَند از کجا، بادہ بگرداں ساقیا" کی پیروی میں چند اشعار۔ تجرباتی طور پر مختلف زبانوں کو قدرے آزادی سے مکس کیا ہے)
"من از کجا، پَند از کجا، بادہ بگرداں ساقیا"
ہے سُرخ رُو سے سُرخرُو پیمانہِ جاں ساقیا
ہے عیب اِس میں کیا بھلا؟ کیسی حیا؟ کُھل کر پِلا
جانے خدا، ظالم بڑا ہے دردِ ہجراں ساقیا
اے نامہ بَر، با چشم تر، دینا اُسے میری خبر
تجھ فیض بِن بنجر نظَر، اور دل ہے ویراں ساقیا
وَجْہَک اَمَل، صوتَک عَسَل، اَنتَ الحَیاۃ، اَنتَ الاَجَل
تُو درد ہے، ہمدرد ہے، اور تُو ہی درماں ساقیا
تُوں عشق وی، تُوں یار وی، تُوں ساحل و منجدھار وی
دریا بھی تُو، کشتی بھی تُو، اور تُو ہی طوفاں ساقیا
جس حال میں لے چل ہمیں، جس جال میں لے چل ہمیں
تُو راہبر، تُو راہزن، تُو ساز و ساماں ساقیا ابنِ مُنیب
"من از کجا، پَند از کجا، بادہ بگرداں ساقیا"
ہے سُرخ رُو سے سُرخرُو پیمانہِ جاں ساقیا
ہے عیب اِس میں کیا بھلا؟ کیسی حیا؟ کُھل کر پِلا
جانے خدا، ظالم بڑا ہے دردِ ہجراں ساقیا
اے نامہ بَر، با چشم تر، دینا اُسے میری خبر
تجھ فیض بِن بنجر نظَر، اور دل ہے ویراں ساقیا
وَجْہَک اَمَل، صوتَک عَسَل، اَنتَ الحَیاۃ، اَنتَ الاَجَل
تُو درد ہے، ہمدرد ہے، اور تُو ہی درماں ساقیا
تُوں عشق وی، تُوں یار وی، تُوں ساحل و منجدھار وی
دریا بھی تُو، کشتی بھی تُو، اور تُو ہی طوفاں ساقیا
جس حال میں لے چل ہمیں، جس جال میں لے چل ہمیں
تُو راہبر، تُو راہزن، تُو ساز و ساماں ساقیا ابنِ مُنیب
وہ پلائیں تو کیا تماشا ہو (ساغر صدیقی کی زمین میں، ایک طرحی مشاعرے کے لیے۔ واوین میں مصرعے ساغر کے ہیں۔)
وہ پلائیں تو کیا تماشا ہو
شیخ آئیں تو کیا تماشا ہو
صحنِ مسجد میں بیٹھ کر واعظ
دل مِلائیں تو کیا تماشا ہو
جن کی گزری ہو عمر سجدوں میں
سر اٹھائیں تو کیا تماشا ہو
تیرے وعدے کا حشْر ہو برپا
"ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو"
تیرے مقتول تیری چاہت میں
"لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو"
جن کو سمجھے ہیں بے زُباں ہم تم
لب ہلائیں تو کیا تماشا ہو
ابنِ مُنیب
وہ پلائیں تو کیا تماشا ہو
شیخ آئیں تو کیا تماشا ہو
صحنِ مسجد میں بیٹھ کر واعظ
دل مِلائیں تو کیا تماشا ہو
جن کی گزری ہو عمر سجدوں میں
سر اٹھائیں تو کیا تماشا ہو
تیرے وعدے کا حشْر ہو برپا
"ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو"
تیرے مقتول تیری چاہت میں
"لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو"
جن کو سمجھے ہیں بے زُباں ہم تم
لب ہلائیں تو کیا تماشا ہو
ابنِ مُنیب
یہ جو دو چار تِرے پیار میں آ بیٹھے ہیں یہ جو دو چار تِرے پیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل کے سودائی ہیں، گلزار میں آ بیٹھے ہیں
بیچ اپنوں کے ہی کرتی ہے سیاست دُنیا
ہم ہی ناداں ہیں جو اغیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل سے مطلب نہیں، نالہ ہی خدا ہے ہم کو
چھوڑ گلزار، سخن زار میں آ بیٹھے ہیں
تُو ترنّم، تُو تغزّل، تُو سُخَن بخش مِرا!
تیرے نغمات جگر تار میں آ بیٹھے ہیں
ہم کو نفرت ہے چھپائے ہوئے چہروں سے مُنیبؔ
چھوڑ مسجد، بھرے بازار میں آ بیٹھے ہیں
ابنِ مُنیب
گُل کے سودائی ہیں، گلزار میں آ بیٹھے ہیں
بیچ اپنوں کے ہی کرتی ہے سیاست دُنیا
ہم ہی ناداں ہیں جو اغیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل سے مطلب نہیں، نالہ ہی خدا ہے ہم کو
چھوڑ گلزار، سخن زار میں آ بیٹھے ہیں
تُو ترنّم، تُو تغزّل، تُو سُخَن بخش مِرا!
تیرے نغمات جگر تار میں آ بیٹھے ہیں
ہم کو نفرت ہے چھپائے ہوئے چہروں سے مُنیبؔ
چھوڑ مسجد، بھرے بازار میں آ بیٹھے ہیں
ابنِ مُنیب
تم خاص پِلاتے تھے تم خاص پِلاتے تھے، جو عام نہیں مِلتا
ہاں جام تو مِلتا ہے، وہ جام نہیں مِلتا
گلیوں میں بھٹکتا ہے، بد راہ ہے دل ایسا
اِس صبح کے بُھولے کو، گھر شام نہیں مِلتا
کچھ عشق کرو صاحب، کچھ نام دھرو صاحب
گھر بیٹھنے والوں کو الزام نہیں مِلتا
پڑھتے ہیں کتابوں میں، سُنتے ہیں خطابوں میں
ہم کو تو حرم میں بھی اسلام نہیں مِلتا
ہم سوچنے والوں کی مشکل ہے مُنیبؔ ایسی
آرام سے بیٹھیں تو آرام نہیں مِلتا
ابنِ مُنیب
ہاں جام تو مِلتا ہے، وہ جام نہیں مِلتا
گلیوں میں بھٹکتا ہے، بد راہ ہے دل ایسا
اِس صبح کے بُھولے کو، گھر شام نہیں مِلتا
کچھ عشق کرو صاحب، کچھ نام دھرو صاحب
گھر بیٹھنے والوں کو الزام نہیں مِلتا
پڑھتے ہیں کتابوں میں، سُنتے ہیں خطابوں میں
ہم کو تو حرم میں بھی اسلام نہیں مِلتا
ہم سوچنے والوں کی مشکل ہے مُنیبؔ ایسی
آرام سے بیٹھیں تو آرام نہیں مِلتا
ابنِ مُنیب
مقبرے (نثرِ لطیف میں ایک اور تجربہ)
سوال کا "س" درسگاہوں سے نکال دیا جائے تو درگاہیں رہ جاتی ہیں
علم کے مقبرے
جہاں تحقیق نہیں ہوتی
تقلید ہوتی ہے
جہاں مجاور ناچتے ہیں حکایات کے گِرد
خرافات کے گِرد
فرسودہ روایات کے گِرد
جہاں جمود کے اندھیروں میں سڑتی ہڈیوں کا جشن منایا جاتا ہے
سوال مجرم ٹھہرتا ہے
اور سجدہ محترم
ارے علم تو زندہ پِیر ہے
یہ سوال سے گھبراتا نہیں
معتبر ہوتا ہے
- اِبنِ مُنیبؔ ابنِ مُنیب
سوال کا "س" درسگاہوں سے نکال دیا جائے تو درگاہیں رہ جاتی ہیں
علم کے مقبرے
جہاں تحقیق نہیں ہوتی
تقلید ہوتی ہے
جہاں مجاور ناچتے ہیں حکایات کے گِرد
خرافات کے گِرد
فرسودہ روایات کے گِرد
جہاں جمود کے اندھیروں میں سڑتی ہڈیوں کا جشن منایا جاتا ہے
سوال مجرم ٹھہرتا ہے
اور سجدہ محترم
ارے علم تو زندہ پِیر ہے
یہ سوال سے گھبراتا نہیں
معتبر ہوتا ہے
- اِبنِ مُنیبؔ ابنِ مُنیب
کب وہ عادت سے جان لیتے ہیں کب وہ عادت سے جان لیتے ہیں
مان رکھتے ہیں، مان لیتے ہیں
اُن کی محفل میں سب اُدھاری ہے
شان دیتے ہیں، شان لیتے ہیں
جانے والے کو کچھ نہیں کہتے
آنے والے کو آن لیتے ہیں
چُھپ کے دیکھے جو دل جلا کوئی
جان لیتے ہیں، جان لیتے ہیں
اُس کو سمجھیں مُنیبؔ ہم کیسے؟
جو زمان و مکان لیتے ہیں ابنِ مُنیب
مان رکھتے ہیں، مان لیتے ہیں
اُن کی محفل میں سب اُدھاری ہے
شان دیتے ہیں، شان لیتے ہیں
جانے والے کو کچھ نہیں کہتے
آنے والے کو آن لیتے ہیں
چُھپ کے دیکھے جو دل جلا کوئی
جان لیتے ہیں، جان لیتے ہیں
اُس کو سمجھیں مُنیبؔ ہم کیسے؟
جو زمان و مکان لیتے ہیں ابنِ مُنیب
ہے کوئی پسِ پردہ؟ ہے کوئی پسِ پردہ؟ مر جائیں تو کیا ہو گا؟
کیا سچ ہے خدا جانے، سُنتے ہیں خدا ہو گا
پہنچا ہے ہمِیں تک پھر، قصہ غمِ اُلفت کا
ہم کو جو سناتے ہو، ہم سے ہی سُنا ہو گا
کچھ عار نہیں اِس میں، حالت ہی ہماری تھی
کہتے تھے سبھی "پاگل"، تم نے بھی کہا ہو گا
بے ہوش پڑے ہیں کیوں، جنت کے مکیں ہر سُو
دیکھا نہ کبھی جس کو، دیکھا نہ گیا ہو گا
اُمّید کے سائے میں، ہوتے ہیں ستم لاکھوں
سو بار جو دل اُجڑا، سو بار بسا ہو گا
بس چَین کی موت آئے، کچھ بار نہ ہو دل پر
ہر اِک سے بھلائی کر، اپنا ہی بھلا ہو گا
ابنِ مُنیب
کیا سچ ہے خدا جانے، سُنتے ہیں خدا ہو گا
پہنچا ہے ہمِیں تک پھر، قصہ غمِ اُلفت کا
ہم کو جو سناتے ہو، ہم سے ہی سُنا ہو گا
کچھ عار نہیں اِس میں، حالت ہی ہماری تھی
کہتے تھے سبھی "پاگل"، تم نے بھی کہا ہو گا
بے ہوش پڑے ہیں کیوں، جنت کے مکیں ہر سُو
دیکھا نہ کبھی جس کو، دیکھا نہ گیا ہو گا
اُمّید کے سائے میں، ہوتے ہیں ستم لاکھوں
سو بار جو دل اُجڑا، سو بار بسا ہو گا
بس چَین کی موت آئے، کچھ بار نہ ہو دل پر
ہر اِک سے بھلائی کر، اپنا ہی بھلا ہو گا
ابنِ مُنیب
آتا ہوں پھر سے وصل کے لمحے کو بار بار چند "سائنسی" اشعار (ٹائم ٹریول، پیرالل یونیورس، سپیس ٹائم، فرسٹ کاز )
آتا ہوں پھر سے وصل کے لمحے کو بار بار
میں ہوں، عنانِ وقت ہے، اور دل ہے دوستو
ایسا بھی ہے جہان کہ جس میں نہیں ہوں مَیں
مجھ بِن سجی ہوئی کہِیں محفل ہے دوستو
سوچُوں تو شش جہات کے زنداں میں قید ہوں
مجھ کو مِلا ہے وقت جو، قاتِل ہے دوستو
واجب ہے اِک وجود بھی میرے وجود کو!؟
میرا وجود ہی مِری مشکل ہے دوستو ابنِ مُنیب
آتا ہوں پھر سے وصل کے لمحے کو بار بار
میں ہوں، عنانِ وقت ہے، اور دل ہے دوستو
ایسا بھی ہے جہان کہ جس میں نہیں ہوں مَیں
مجھ بِن سجی ہوئی کہِیں محفل ہے دوستو
سوچُوں تو شش جہات کے زنداں میں قید ہوں
مجھ کو مِلا ہے وقت جو، قاتِل ہے دوستو
واجب ہے اِک وجود بھی میرے وجود کو!؟
میرا وجود ہی مِری مشکل ہے دوستو ابنِ مُنیب
یوں نہ بے نام سی سزا دیجے یوں نہ بے نام سی سزا دیجے
فیصلہ جو بھی ہو سُنا دیجے
لے تو آئے ہیں آپ موجوں تک
اب سمندر میں راستہ دیجے
خانہِ درد ہے جہاں صاحب
جس سے ملیے اُسے دعا دیجے
ڈوبتا ہے سفینہِ یزداں
اب خداؤں کو ناخدا دیجے؟
ناز در ناز کیجئے گھایل
زخم در زخم حوصلہ دیجے
لمحہ لمحہ ہے فرصتِ تازہ
صبحِ ناکام کو بُھلا دیجے
دیجیے قیس کو دعائیں بس
ایسے مجنوں کو اور کیا دیجے؟
کاش منکر نکیر یوں کہہ دیں
شعر تازہ کوئی سنا دیجے
جن سے ہوتا ہو رازِ دل افشا
ایسے الفاظ کو مِٹا دیجے
دل کو رکھنا ہو صاف گر صاحب
جس سے ملیے اُسے دعا دیجے
رہ نہ جائیں مُنیبؔ محوِ خواب
وصل کی رات ہے جگا دیجے
- اِبنِ مُنیبؔ
ابنِ مُنیب
فیصلہ جو بھی ہو سُنا دیجے
لے تو آئے ہیں آپ موجوں تک
اب سمندر میں راستہ دیجے
خانہِ درد ہے جہاں صاحب
جس سے ملیے اُسے دعا دیجے
ڈوبتا ہے سفینہِ یزداں
اب خداؤں کو ناخدا دیجے؟
ناز در ناز کیجئے گھایل
زخم در زخم حوصلہ دیجے
لمحہ لمحہ ہے فرصتِ تازہ
صبحِ ناکام کو بُھلا دیجے
دیجیے قیس کو دعائیں بس
ایسے مجنوں کو اور کیا دیجے؟
کاش منکر نکیر یوں کہہ دیں
شعر تازہ کوئی سنا دیجے
جن سے ہوتا ہو رازِ دل افشا
ایسے الفاظ کو مِٹا دیجے
دل کو رکھنا ہو صاف گر صاحب
جس سے ملیے اُسے دعا دیجے
رہ نہ جائیں مُنیبؔ محوِ خواب
وصل کی رات ہے جگا دیجے
- اِبنِ مُنیبؔ
ابنِ مُنیب