Poetries by Mohammed Iqbal Ishrat Warsi
اِنگلش قافیہ اُردو رَدِیف رُونی صورت نہ بنا غَم سے بھرے پُوز نہ دے
کُچھ تُو کامیڈی دِکھا نَقل بھرے شُوز نہ دے
کوئی مُوبائیل دِلا دے یا کوئی اچھی گھڑی
مجھ کُو بیکار نِکموں کی طرح رُوز نہ دے
عشرتِ وارثی یہ دَرد بھرے انجکشن
رُوکد ے بھائی اِنہیں اُور مجھے ڈُوز نہ دے
۔۔
In English .Pose. Dose. Rose. shows
دِکھاوا ۔ پُھول۔خُوراک ۔اَنداز ۔۔۔ بمعنیٰ اُردو
ishrat iqbal warsi
کُچھ تُو کامیڈی دِکھا نَقل بھرے شُوز نہ دے
کوئی مُوبائیل دِلا دے یا کوئی اچھی گھڑی
مجھ کُو بیکار نِکموں کی طرح رُوز نہ دے
عشرتِ وارثی یہ دَرد بھرے انجکشن
رُوکد ے بھائی اِنہیں اُور مجھے ڈُوز نہ دے
۔۔
In English .Pose. Dose. Rose. shows
دِکھاوا ۔ پُھول۔خُوراک ۔اَنداز ۔۔۔ بمعنیٰ اُردو
ishrat iqbal warsi
آج تُم اپنے نصِیبوں کو جَگا کر سُونا اِسمِ احمد کو ہُونٹوں پہ سجا کر سُونا
یادِ طیبہ کو نِگاہوں میں بَسا کر سُونا
کیا خَبر خَاب میں آجائیں بُجھانے کیلئے
تِشنگی اور بھی تُم اپنی بَڑھا کر سُونا
عاصِیوں پر وہ مِہربان صدا رِہتے ہیں
اپنے جُرموں پہ نِگاہُوں کو جَما کر سُونا
عشرتِ وارثی تُم پہ بھی کرم ہُوگا ضرور
آج تُم اپنے نصِیبوں کو جَگا کر سُونا ishrta iqbal warsi
یادِ طیبہ کو نِگاہوں میں بَسا کر سُونا
کیا خَبر خَاب میں آجائیں بُجھانے کیلئے
تِشنگی اور بھی تُم اپنی بَڑھا کر سُونا
عاصِیوں پر وہ مِہربان صدا رِہتے ہیں
اپنے جُرموں پہ نِگاہُوں کو جَما کر سُونا
عشرتِ وارثی تُم پہ بھی کرم ہُوگا ضرور
آج تُم اپنے نصِیبوں کو جَگا کر سُونا ishrta iqbal warsi
صدیوں کی رازدار ہیں تیری آنکھیں عجب مُعمُّوں سے پیکار ہیں تیری آنکھیں
جِیسے صدیوں کی رازدار ہیں تیری آنکھیں
کوئی کِسطرح نِگاہُوں کو اُٹھا کر دیکھے
دِل پہ خنجر کی کاری دھار ہیں تیری آنکھیں
جب سے دیکھا ہے اِنہیں نیند نہیں آتی مُجھے
رُوبرو میرے ، میرے یار ہیں تیری آنکھیں
بِن تیری دِید گَر مرجاتے تُو غالب کہتے
عشرت وارثی بیکار ہیں تیری آنکھیں ishrat iqbal warsi
جِیسے صدیوں کی رازدار ہیں تیری آنکھیں
کوئی کِسطرح نِگاہُوں کو اُٹھا کر دیکھے
دِل پہ خنجر کی کاری دھار ہیں تیری آنکھیں
جب سے دیکھا ہے اِنہیں نیند نہیں آتی مُجھے
رُوبرو میرے ، میرے یار ہیں تیری آنکھیں
بِن تیری دِید گَر مرجاتے تُو غالب کہتے
عشرت وارثی بیکار ہیں تیری آنکھیں ishrat iqbal warsi
گِرتی ہوئی دیوار گِرا کیوں نہیں دیتے ظُلمت کا ہر نِشان مِٹا کیوں نہیں دیتے
خُوابیدہ ہر جواں کو اُٹھا کیوں نہیں دیتے
مُسلم نہ شَقی ہے نہ جنوں اُسکا مقدر
ہر ہاتھ میں پھر قلم تھما کیوں نہیں دیتے
زردار نے رُخ مُوڑ کے نادار بہائے
بند تُوڑنے والوں کو سزا کیوں نہیں دیتے
غَم ہو یا مُصیبت ہو مومن نہیں ڈرتا
قُرآن کا فرمان سُنا کیوں نہیں دیتے
باطل اگر ہے مُوج تو ہم کوہ کی صورت
پُر عزم چَٹاں پانیوں کو رستہ نہیں دیتے
سُونے کا نہیں وقت یہ وارثی عشرت
گِرتی ہوئی دیوار گِرا کیوں نہیں دیتے Ishrat Iqbal Warsi
خُوابیدہ ہر جواں کو اُٹھا کیوں نہیں دیتے
مُسلم نہ شَقی ہے نہ جنوں اُسکا مقدر
ہر ہاتھ میں پھر قلم تھما کیوں نہیں دیتے
زردار نے رُخ مُوڑ کے نادار بہائے
بند تُوڑنے والوں کو سزا کیوں نہیں دیتے
غَم ہو یا مُصیبت ہو مومن نہیں ڈرتا
قُرآن کا فرمان سُنا کیوں نہیں دیتے
باطل اگر ہے مُوج تو ہم کوہ کی صورت
پُر عزم چَٹاں پانیوں کو رستہ نہیں دیتے
سُونے کا نہیں وقت یہ وارثی عشرت
گِرتی ہوئی دیوار گِرا کیوں نہیں دیتے Ishrat Iqbal Warsi
دیئے کا ٹِمٹمانا موت کی آہٹ ہی سہی لگی ہے آگ جو من میں بُجھاؤں کیسے
یہ پیاس زیست کا ارماں ہے مِٹاؤں کیسے
ہزاروں خواہشیں پالی ہیں ایک مُدت میں
میں حسرتوں سے اب آنکھیں چُراؤں کیسے
دیئے کا ٹِمٹمانا موت کی آہٹ ہی سہی
میں کاسئہ بھیک کا ہاتھوں میں اُٹھاؤں کیسے
عشرت وارثی آسیب کی مانند یادیں
دِل کے ویرانے میں پنہاں ہیں بُھلاؤں کیسے Ishrat Iqbal Warsi
یہ پیاس زیست کا ارماں ہے مِٹاؤں کیسے
ہزاروں خواہشیں پالی ہیں ایک مُدت میں
میں حسرتوں سے اب آنکھیں چُراؤں کیسے
دیئے کا ٹِمٹمانا موت کی آہٹ ہی سہی
میں کاسئہ بھیک کا ہاتھوں میں اُٹھاؤں کیسے
عشرت وارثی آسیب کی مانند یادیں
دِل کے ویرانے میں پنہاں ہیں بُھلاؤں کیسے Ishrat Iqbal Warsi
نکیرو مجھکو پہچانو میری زنجیر کو دِیکھو میں دیوانہ ہُوں دیوانہ جنابِ غوثِ اعظم کا
میں مَستانہ ہُوں مَستانہ جنابِ غُوثِ اعظم کا
مجھے ساقی وہ مے لا دے جو اُنکے در پہ بٹتی ہے
میرا دِل بھی ہُو میخانہ جَنابِ غُوثِ اعظم کا
پرندہ بَن کے اُڑجاؤں اگر پرواز کے پَر ہُوں
سخی در دیکھوں روزانہ جَنابِ غُوثِ اعظم کا
نکیرو مجھکو پہچانو میری زنجیر کو دِیکھو
نہ چھیڑو میں ہُوں مستانہ جَنابِ غُوثِ اعظم کا
جو کھاتا ہے کسی کا وہ اُسی کے گیت گاتا ہے
میرا کھانا میرا گانا جَنابِ غُوثِ اعظم کا
وَہاں زاہد تڑپتے ہیں یَہاں اِنکے غُلاموں کو
مِلا لا تَخف پروانہ جَنابِ غُوثِ اعظم کا
جِسے چاہیں غَنی کردیں جِسے چاہیں وَلی کردیں
نَبی قاسِم سے ہے پانا جَنابِ غُوثِ اعظم کا
اے عشرت وارثی دیواہ کو چَل اب دور نہ رَہیو
کہ ہوگا جَلد بُلوانا جَنابِ غُوثِ اعظم کا Ishrat Iqbal Warsi
میں مَستانہ ہُوں مَستانہ جنابِ غُوثِ اعظم کا
مجھے ساقی وہ مے لا دے جو اُنکے در پہ بٹتی ہے
میرا دِل بھی ہُو میخانہ جَنابِ غُوثِ اعظم کا
پرندہ بَن کے اُڑجاؤں اگر پرواز کے پَر ہُوں
سخی در دیکھوں روزانہ جَنابِ غُوثِ اعظم کا
نکیرو مجھکو پہچانو میری زنجیر کو دِیکھو
نہ چھیڑو میں ہُوں مستانہ جَنابِ غُوثِ اعظم کا
جو کھاتا ہے کسی کا وہ اُسی کے گیت گاتا ہے
میرا کھانا میرا گانا جَنابِ غُوثِ اعظم کا
وَہاں زاہد تڑپتے ہیں یَہاں اِنکے غُلاموں کو
مِلا لا تَخف پروانہ جَنابِ غُوثِ اعظم کا
جِسے چاہیں غَنی کردیں جِسے چاہیں وَلی کردیں
نَبی قاسِم سے ہے پانا جَنابِ غُوثِ اعظم کا
اے عشرت وارثی دیواہ کو چَل اب دور نہ رَہیو
کہ ہوگا جَلد بُلوانا جَنابِ غُوثِ اعظم کا Ishrat Iqbal Warsi
مرحبا کی مَچاتے ہیں جب دُھوم ہَم آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم ۔ واللیل والضُحٰی ویلکم ویلکم
ہو زمیں و زماں کے مختار تُم
رب کی تخلیق میں ایک شاہکار تم
رب کے محبوب تم رب کے دِلدار تم
ہم گنہگاروں کے اک خریدار تم
عاصیوں کی صدا ویلکم ویلکم۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
کل بھی روتا تھا ابلیس اور آج بھی
اُس کے یاروں کا سینے میں گُھٹتا ہے دَم
بارھویں کی مَحافِل سجاتے ہُوئے
مرحَبا کی مَچاتے ہیں جب دُھوم ہم
نعرہ َٔمرحبا ویلکم ویلکم۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
پُہنچے بُراق پہ جب کہ شاہِ زَمَن
حُور و غُلماں یہ بُولے مَنا کہ جَشَن
آگئے وہ جو باعِثِ تَخلیق ہیں
اپنے غیروں سبھی پہ جو شفیق ہیں
قُدسیوں نے کہا ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
رَبّ کے پیغامِ لولاک میں ہے پِنہاں
اُس کے مِحبوب کی عَظمتُوں کے نِشاں
یہ چَمکتے سِتارے زَمیں کہکشاں
فَلک شَمسُ و قَمر اور یہ سارا زماں
آپ ہی پہ فِدا ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
آپ ہی کے لئے ہے بَندھا یہ سَماں
آپ ہی کی ہے کوثر حَسِیں گُلسِتاں
مُجھکو بُلوَا لو اب تو یہاں سے وہاں
صَدقہ حَسنین کا تُم کو شاہِ زماں
ہُو قُبول اِستدعا ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
عشرتِ وارثی پہ نِگاہِ کرم
کب سے بیکار بیٹھا ہے شاہِ اُمم
پھر دِکھا دو اِسے اپنا سوھنا حَرم
لکھ رہا ہے ثنا اِسکا رکھنا بھرم
ہوگئی اِبتدأ ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
Mohammed Iqbal Ishrat Warsi
ہو زمیں و زماں کے مختار تُم
رب کی تخلیق میں ایک شاہکار تم
رب کے محبوب تم رب کے دِلدار تم
ہم گنہگاروں کے اک خریدار تم
عاصیوں کی صدا ویلکم ویلکم۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
کل بھی روتا تھا ابلیس اور آج بھی
اُس کے یاروں کا سینے میں گُھٹتا ہے دَم
بارھویں کی مَحافِل سجاتے ہُوئے
مرحَبا کی مَچاتے ہیں جب دُھوم ہم
نعرہ َٔمرحبا ویلکم ویلکم۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
پُہنچے بُراق پہ جب کہ شاہِ زَمَن
حُور و غُلماں یہ بُولے مَنا کہ جَشَن
آگئے وہ جو باعِثِ تَخلیق ہیں
اپنے غیروں سبھی پہ جو شفیق ہیں
قُدسیوں نے کہا ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
رَبّ کے پیغامِ لولاک میں ہے پِنہاں
اُس کے مِحبوب کی عَظمتُوں کے نِشاں
یہ چَمکتے سِتارے زَمیں کہکشاں
فَلک شَمسُ و قَمر اور یہ سارا زماں
آپ ہی پہ فِدا ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
آپ ہی کے لئے ہے بَندھا یہ سَماں
آپ ہی کی ہے کوثر حَسِیں گُلسِتاں
مُجھکو بُلوَا لو اب تو یہاں سے وہاں
صَدقہ حَسنین کا تُم کو شاہِ زماں
ہُو قُبول اِستدعا ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
عشرتِ وارثی پہ نِگاہِ کرم
کب سے بیکار بیٹھا ہے شاہِ اُمم
پھر دِکھا دو اِسے اپنا سوھنا حَرم
لکھ رہا ہے ثنا اِسکا رکھنا بھرم
ہوگئی اِبتدأ ویلکم ویلکم ۔ ۔ آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم
Mohammed Iqbal Ishrat Warsi
شام ہونے نہ دو سورج سے دوستی کرلو کچھ ایسا کام کرو زیست کو امر کرلو
کسی کو دِل میں بساؤ یا اپنا گھر کرلو
شام ہونے نہ دو سورج سے دوستی کرلو
اشک بہنے دو مگر رُخ اِدھر اُدھر کرلو
ہنسی اُڑاؤ کسی کی نہ دِل دُکھاؤ کسی کا
ستارے توڑ لو چاہے قمر پہ گھر کرلو
ہزاروں راہ میں بکھرے ہیں وارثی عشرت
گُلوں کو چھوڑ دو دامن کو خار سے بھرلو Mohammed Iqbal Ishrat Warsi
کسی کو دِل میں بساؤ یا اپنا گھر کرلو
شام ہونے نہ دو سورج سے دوستی کرلو
اشک بہنے دو مگر رُخ اِدھر اُدھر کرلو
ہنسی اُڑاؤ کسی کی نہ دِل دُکھاؤ کسی کا
ستارے توڑ لو چاہے قمر پہ گھر کرلو
ہزاروں راہ میں بکھرے ہیں وارثی عشرت
گُلوں کو چھوڑ دو دامن کو خار سے بھرلو Mohammed Iqbal Ishrat Warsi
پھر جنازہ دُھوم سے نِکلا ہے کچھ ارمانوں کا جِس کو پالا تھا بڑے نازوں سے اُسکے باپ نے
خُوب بدلہ دے گئی وہ اُس کے سب اِحسانوں کا
ماں کی ممتا بھائیوں کی چھاؤں کو وہ بُھول کر
ہوگئی آزاد دے کر بار کتنے طَعنوں کا
کل نِکل کر پھر اک بچی اپنے گھر سے چَل پڑی
پھر جنازہ دُھوم سے نِکلا ہے کچھ ارمانوں کا
کون عشرت وارثی ماں باپ کو رُسوا کرے
یہ طریقہ لگتا ہے اغیار کا شیطانوں کا Mohammad Iqbal Ishrat Warsi
خُوب بدلہ دے گئی وہ اُس کے سب اِحسانوں کا
ماں کی ممتا بھائیوں کی چھاؤں کو وہ بُھول کر
ہوگئی آزاد دے کر بار کتنے طَعنوں کا
کل نِکل کر پھر اک بچی اپنے گھر سے چَل پڑی
پھر جنازہ دُھوم سے نِکلا ہے کچھ ارمانوں کا
کون عشرت وارثی ماں باپ کو رُسوا کرے
یہ طریقہ لگتا ہے اغیار کا شیطانوں کا Mohammad Iqbal Ishrat Warsi
منالو اپنے رب کو مومِنوں رمضان آیا ہے منالو اپنے رب کو مومِنوں رمضان آیا ہے
برات مغفرت کا دیکھو یہ سامان لایا ہے
سماں ہے نور کا موسم بہاراں ساتھ لایا ہے
گناہوں سے بچانے نیکیوں کا جام لایا ہے
ہے لیلتہ القدر اس میں ہزار ماہ سے بِہتر
“ غلامانِ نبی “ کے واسطے انعام لایا ہے
تھا رمضاں کا سماں کیسا سحر افطار تھی کیسی
یہ اُس سے پوچھئے جس نے مدینے میں بِتایا ہے
الٰہی وارثی عشرت کے بےشک ہیں جُرَم بیحد
عفو کر واسطے محبوب کے جو کہ بے سایا ہے Ishrat Iqbal Warsi
برات مغفرت کا دیکھو یہ سامان لایا ہے
سماں ہے نور کا موسم بہاراں ساتھ لایا ہے
گناہوں سے بچانے نیکیوں کا جام لایا ہے
ہے لیلتہ القدر اس میں ہزار ماہ سے بِہتر
“ غلامانِ نبی “ کے واسطے انعام لایا ہے
تھا رمضاں کا سماں کیسا سحر افطار تھی کیسی
یہ اُس سے پوچھئے جس نے مدینے میں بِتایا ہے
الٰہی وارثی عشرت کے بےشک ہیں جُرَم بیحد
عفو کر واسطے محبوب کے جو کہ بے سایا ہے Ishrat Iqbal Warsi
کبھی اِسکا در کبھی اُسکا در نہ میں خاص ہوں نہ ہی عام ہوں
نہ بادہ نو نہ ناصِحٰہ کا کلام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
نہ نجیب نہ ہی غریب ہوں
نہ سلیم نہ ہی کلیم ہوں
نہ ہی رند ہوں نہ پارسہ
نہ ہی کوئی تشنہ کام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی میکدہ کبھی آستاں
کبھی بےقرار کبھی شادماں
نہ ہی وحشتوں کا اسیر ہوں
نہ ہی زندگی کا غلام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی بے یقیں کبھی دیدہ ور
کبھی اِسکا در کبھی اُسکا در
کبھی نِکہتوں کا پیام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی ہنس د ئیے کبھی رُو د ئیے
کبھی چُپ رہے دیکھا کئے
کبھی سحر ہوں تو کبھی شام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی جگنوؤں کی لپک جھپک
کبھی آہو جیسے سُبک سُبک
کبھی کہکشاؤں کی چمک دَمک
کبھی سُرمئی سی کوئی شام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی شاعری کبھی فلسفہ
کبھی جلوتوں میں واعظ نُماء
کبھی خلوتوں میں بہک گیا
سا خیال نا تمام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا Ishrat Iqbal Warsi
نہ بادہ نو نہ ناصِحٰہ کا کلام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
نہ نجیب نہ ہی غریب ہوں
نہ سلیم نہ ہی کلیم ہوں
نہ ہی رند ہوں نہ پارسہ
نہ ہی کوئی تشنہ کام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی میکدہ کبھی آستاں
کبھی بےقرار کبھی شادماں
نہ ہی وحشتوں کا اسیر ہوں
نہ ہی زندگی کا غلام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی بے یقیں کبھی دیدہ ور
کبھی اِسکا در کبھی اُسکا در
کبھی نِکہتوں کا پیام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی ہنس د ئیے کبھی رُو د ئیے
کبھی چُپ رہے دیکھا کئے
کبھی سحر ہوں تو کبھی شام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی جگنوؤں کی لپک جھپک
کبھی آہو جیسے سُبک سُبک
کبھی کہکشاؤں کی چمک دَمک
کبھی سُرمئی سی کوئی شام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا
کبھی شاعری کبھی فلسفہ
کبھی جلوتوں میں واعظ نُماء
کبھی خلوتوں میں بہک گیا
سا خیال نا تمام ہوں
کہیں درمیاں میں ہوں کھڑا ہوا Ishrat Iqbal Warsi
گھر کے کچے سے آنگن میں پہلے جب بارش گھر کے کچے سے آنگن میں پہلے جب بارش ہوتی تھی
چاروں سُو سوندھی خوشبو گھر میں پھیل سی جاتی تھی
پیٹ تو اب بھی بھر جاتا ہے پر اماں جب پکاتی تھیں
نان کے ہر ہر پارے سے اِک مِہک الگ سی آتی تھی
اَب گھر کا آنگن پُختہ ہے اور جُدا ہمارا رَستہ ہے
وہ اُلفت ہم بِچھڑ گئی جو مَکاں کو گھر بَناتی تھی Ishrat Iqbal Warsi
چاروں سُو سوندھی خوشبو گھر میں پھیل سی جاتی تھی
پیٹ تو اب بھی بھر جاتا ہے پر اماں جب پکاتی تھیں
نان کے ہر ہر پارے سے اِک مِہک الگ سی آتی تھی
اَب گھر کا آنگن پُختہ ہے اور جُدا ہمارا رَستہ ہے
وہ اُلفت ہم بِچھڑ گئی جو مَکاں کو گھر بَناتی تھی Ishrat Iqbal Warsi
یہ درد انعام ہے خاص بہت یہ دَرد اِنعام ہے خاص بہت
ہر عام کو یہ مِلتا بھی نہیں
نہ رونے دے نہ ہنسنے دے
اِسے ہر اِک سہہ سکتا بھی نہیں
یہ آتش دِل میں بَھڑکائے
پِھر جگر کو جا کہ سلگائے
چہرے پہ زردی پھیلائے
پر ظاہر میں تپتا بھی نہیں
یہ گوہر ہے نایاب بُہت
اِسے رول نہ دینا پا کہ تُم
جب لب پہ شکایت آجائے
تو دِل مین یہ بَستا بھی نہیں
یہ رب سے مِلانے والا ہے
مَنزل “ دِکھلانے “ والا ہے
پر وارثی عشرت کیا جانے
ٹہراؤ نہیں - سُنتا بھی نہیں Ishrat Iqbal Warsi
ہر عام کو یہ مِلتا بھی نہیں
نہ رونے دے نہ ہنسنے دے
اِسے ہر اِک سہہ سکتا بھی نہیں
یہ آتش دِل میں بَھڑکائے
پِھر جگر کو جا کہ سلگائے
چہرے پہ زردی پھیلائے
پر ظاہر میں تپتا بھی نہیں
یہ گوہر ہے نایاب بُہت
اِسے رول نہ دینا پا کہ تُم
جب لب پہ شکایت آجائے
تو دِل مین یہ بَستا بھی نہیں
یہ رب سے مِلانے والا ہے
مَنزل “ دِکھلانے “ والا ہے
پر وارثی عشرت کیا جانے
ٹہراؤ نہیں - سُنتا بھی نہیں Ishrat Iqbal Warsi
ہر “ مُصاحِب “ یہاں ہاتھ دھو رہا ہے دہقان پریشاں ہیں “ مزدور “ رو رہا ہے
ہر ایک آنسوؤں سے دامن بھگو رہا ہے
جسے - رہنما بنایا نشتر چبھو رہا ہے
کیا بنے گا قافلہ کا کہ امیر سو رہا ہے
نہ ہے شِیر - نہ ہی شِیریں نہ ہے آب نہ روانی
نہ بدن ڈھکا ہوا ہے نہ ہی دانہ جو رہا ہے
یہ نالے یہ صدائیں پہنچیں گی عرش اک دن
اُسے بھی وہی ملے گا وہ جو آج بُو رہا ہے
وہ سمجھ رہے ہیں گنگا کی طرح مِرے وطن کو
تبھی آکہ ہر “ مُصاحِب “ یہاں ہاتھ دھو رھا ہے
یہاں دھونس دھاندلی ہے یہاں قُرب پروری ہے
جسے عشق ہو خودی سے وہ لہو لہو رہا ہے
یہاں کون سُن رہا تجھے وارثیِ عشرت
ہے سقیم حال تیرا کیوں جذب کھو رہا ہے Ishrat Iqbal Warsi
ہر ایک آنسوؤں سے دامن بھگو رہا ہے
جسے - رہنما بنایا نشتر چبھو رہا ہے
کیا بنے گا قافلہ کا کہ امیر سو رہا ہے
نہ ہے شِیر - نہ ہی شِیریں نہ ہے آب نہ روانی
نہ بدن ڈھکا ہوا ہے نہ ہی دانہ جو رہا ہے
یہ نالے یہ صدائیں پہنچیں گی عرش اک دن
اُسے بھی وہی ملے گا وہ جو آج بُو رہا ہے
وہ سمجھ رہے ہیں گنگا کی طرح مِرے وطن کو
تبھی آکہ ہر “ مُصاحِب “ یہاں ہاتھ دھو رھا ہے
یہاں دھونس دھاندلی ہے یہاں قُرب پروری ہے
جسے عشق ہو خودی سے وہ لہو لہو رہا ہے
یہاں کون سُن رہا تجھے وارثیِ عشرت
ہے سقیم حال تیرا کیوں جذب کھو رہا ہے Ishrat Iqbal Warsi