Poetries by MAZHAR IQBAL GONDAL
جو سچ کہوں تو کئی رِشتے ٹوٹ جاتے ہیں جو سچ کہوں تو کئی رِشتے ٹوٹ جاتے ہیں
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے MAZHAR IQBAL GONDAL
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے MAZHAR IQBAL GONDAL
جینا دُشوار کر دیا گیا ہے جینا دُشوار کر دیا گیا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
MAZHAR IQBAL GONDAL
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
MAZHAR IQBAL GONDAL
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں MAZHAR IQBAL GONDAL
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں MAZHAR IQBAL GONDAL
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
آتے جاتے ہیں اب تو سب ہی غیر اس میں آتے جاتے ہیں اَب تو سب ہی غَیر اس میں
دِل کو تجھے بازار تو بِلکل بھی نہیں کرنا چاہئے تھا
چند لمحوں کے لئے اُس پہ یَقیں آ بھی گیا تھا
پر مجھے یوں خود کو دھوکا نہیں کرنا چاہئے تھا
چاہت کے سفر میں تو نے حدِ عَداوت کی
اَیسے ظالِم کو تو پیارا نہیں کرنا چاہئے تھا
میں نے روکا تھا مگر دِل نہ رُکا، اُس نے کہا بھی
عِشق کو اِتنا طَلَب گار نہیں کرنا چاہئے تھا
لوگوں کے تَبصروں میں خود کو رُسوا کیا میں نے
اَپنی تَقدیر کا اِظہار نہیں کرنا چاہئے تھا
یاد آتی ہے تو دِل پھر سے خطا کرتا ہے ناحَق
اَیسے نادَم کو پُکارا نہیں کرنا چاہئے تھا
اَب پَشیمان ہوں، ہر بات پہ آتی ہے خَلَش سی
یوں کسی نام پہ رسوا نہیں کرنا چاہئے تھا
میں ہی غم خوار تھا، میں ہی تماشا بن گیا آخر
اپنے ہی دِل کو تماشا نہیں کرنا چاہئے تھا
مظہرؔ دِل کے اِرادوں کا یہ اَنجام تو دیکھا
دِل کو تجھے بازار تو بِلکل بھی نہیں کرنا چاہئے تھا MAZHAR IQBAL GONDAL
دِل کو تجھے بازار تو بِلکل بھی نہیں کرنا چاہئے تھا
چند لمحوں کے لئے اُس پہ یَقیں آ بھی گیا تھا
پر مجھے یوں خود کو دھوکا نہیں کرنا چاہئے تھا
چاہت کے سفر میں تو نے حدِ عَداوت کی
اَیسے ظالِم کو تو پیارا نہیں کرنا چاہئے تھا
میں نے روکا تھا مگر دِل نہ رُکا، اُس نے کہا بھی
عِشق کو اِتنا طَلَب گار نہیں کرنا چاہئے تھا
لوگوں کے تَبصروں میں خود کو رُسوا کیا میں نے
اَپنی تَقدیر کا اِظہار نہیں کرنا چاہئے تھا
یاد آتی ہے تو دِل پھر سے خطا کرتا ہے ناحَق
اَیسے نادَم کو پُکارا نہیں کرنا چاہئے تھا
اَب پَشیمان ہوں، ہر بات پہ آتی ہے خَلَش سی
یوں کسی نام پہ رسوا نہیں کرنا چاہئے تھا
میں ہی غم خوار تھا، میں ہی تماشا بن گیا آخر
اپنے ہی دِل کو تماشا نہیں کرنا چاہئے تھا
مظہرؔ دِل کے اِرادوں کا یہ اَنجام تو دیکھا
دِل کو تجھے بازار تو بِلکل بھی نہیں کرنا چاہئے تھا MAZHAR IQBAL GONDAL
یہ شاعِری ہے حَقیقت کی اِک جَمی ہُوئی تَصویر یہ شاعِری ہے حَقیقت کی اِک جَمی ہُوئی تَصویر
چِراغِ دِل کی کَرامَت ہے روشنی کی بَنی تَصویر
محبّتوں کی حَقیقت ہے زِندَگی کی لِکھی تَحریر
یہ دِل کی گَہرائِیوں سے ہے روشنی کی بَنی تَصویر
گُماں کے زَہر کو توڑیں جو اَہلِ صِدق وَ یَقیں دائِم
یَقینِ قَلب ہی بَنتا ہے روشنی کی بَنی تَصویر
جَہاں میں صَبر ہے طاقَت، جَہاں میں شُکر ہے دَولَت
یہی تو ہے دینِ فِطرَت کی روشنی کی بَنی تَصویر
اُمید و صَبر کی قُوَّت ہے اَنبِساط کا سَرمایَہ
صَداقَتوں کی حَقیقت ہے زِندَگی کی بَنی تَصویر
محبّتوں کے سَبَق سے ہے دِل کو مِلتی سُکونَت بھی
یہ عِشقِ صادِق ہی دیتا ہے روشنی کی بَنی تَصویر
ہَر ایک موڑ پہ دیکھی ہے کائِنات نے، "مَظہَرؔ"
خُدا کی قُدرَت نَمایاں ہے روشنی کی بَنی تَصویر MAZHAR IQBAL GONDAL
چِراغِ دِل کی کَرامَت ہے روشنی کی بَنی تَصویر
محبّتوں کی حَقیقت ہے زِندَگی کی لِکھی تَحریر
یہ دِل کی گَہرائِیوں سے ہے روشنی کی بَنی تَصویر
گُماں کے زَہر کو توڑیں جو اَہلِ صِدق وَ یَقیں دائِم
یَقینِ قَلب ہی بَنتا ہے روشنی کی بَنی تَصویر
جَہاں میں صَبر ہے طاقَت، جَہاں میں شُکر ہے دَولَت
یہی تو ہے دینِ فِطرَت کی روشنی کی بَنی تَصویر
اُمید و صَبر کی قُوَّت ہے اَنبِساط کا سَرمایَہ
صَداقَتوں کی حَقیقت ہے زِندَگی کی بَنی تَصویر
محبّتوں کے سَبَق سے ہے دِل کو مِلتی سُکونَت بھی
یہ عِشقِ صادِق ہی دیتا ہے روشنی کی بَنی تَصویر
ہَر ایک موڑ پہ دیکھی ہے کائِنات نے، "مَظہَرؔ"
خُدا کی قُدرَت نَمایاں ہے روشنی کی بَنی تَصویر MAZHAR IQBAL GONDAL
روزن تو کوئی چاہئے کمرے کی گھٹن کو روزن تو کوئی چاہئے کمرے کی گھٹن کو
دیتا ہے بہاروں کا پتا بامِ چمن کو
بارش کی صدا دے گئی دل میں نئی چاہ
پھولوں نے بلایا ہے ہوا کے چلن کو
تنہائی کی دیوار پہ سایہ بھی نہیں ہے
کیسے میں سنبھالوں گا دلِ زخم بدن کو
یادوں کی جلن سرد ہو اے کاش کوئی دن
لمحے جو جلا دیتے ہیں جلتے ہوئے تن کو
ماتم کا سماں ہے کہ ہر اک پل میں چبھن ہے
پایا نہیں میں نے کبھی خوشبو ثمن کو
خوابوں کے دریچے پہ ابھی قفل پڑے ہیں
کون آئے کھلا دے مرے اندر کے فتن کو
مظہرؔ یہ جو دیواریں ہیں خاموش بہت ہیں
دیتا ہے اشارہ کوئی آنگن کے چلن کو MAZHAR IQBAL GONDAL
دیتا ہے بہاروں کا پتا بامِ چمن کو
بارش کی صدا دے گئی دل میں نئی چاہ
پھولوں نے بلایا ہے ہوا کے چلن کو
تنہائی کی دیوار پہ سایہ بھی نہیں ہے
کیسے میں سنبھالوں گا دلِ زخم بدن کو
یادوں کی جلن سرد ہو اے کاش کوئی دن
لمحے جو جلا دیتے ہیں جلتے ہوئے تن کو
ماتم کا سماں ہے کہ ہر اک پل میں چبھن ہے
پایا نہیں میں نے کبھی خوشبو ثمن کو
خوابوں کے دریچے پہ ابھی قفل پڑے ہیں
کون آئے کھلا دے مرے اندر کے فتن کو
مظہرؔ یہ جو دیواریں ہیں خاموش بہت ہیں
دیتا ہے اشارہ کوئی آنگن کے چلن کو MAZHAR IQBAL GONDAL
نظر کے سامنے تھی اب خُدا جانے کہاں رکھ دی
نظر کے سامنے تھی اب خُدا جانے کہاں رکھ دی
محبت کی کتاب اُس نے اچانک کیوں نہاں رکھ دی
میں جس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں اپنی بےکسی میں اب
وہی امید کی صورت نظر سے ناگہاں رکھ دی
زباں سے پیار کے دعوے، دلوں میں کینہ پروری
وفا کے باب کو لوگوں نے کیسا بے زباں رکھ دی
یہاں ہر چہرہ آئینہ لگے لیکن حقیقت میں
عداوت کو نقابوں کے پسِ پردہ نہاں رکھ دی
خدا کا نام لے کر بھی ستم جاری رکھا لوگوں نے
عبادت کے بہانے ظلم کو رسمِ جہاں رکھ دی
میں ٹوٹا تو غموں کے بوجھ سے لیکن یہ حیرانی
کہ اُس نے بے نیازی کو ہی قسمت کی زباں رکھ دی
سفر کے راستوں پر روشنی باقی نہ تھی مظہرؔ
چراغِ دل کو کس نے آندھیوں میں مہرباں رکھ دی MAZHAR IQBAL GONDAL
نظر کے سامنے تھی اب خُدا جانے کہاں رکھ دی
محبت کی کتاب اُس نے اچانک کیوں نہاں رکھ دی
میں جس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں اپنی بےکسی میں اب
وہی امید کی صورت نظر سے ناگہاں رکھ دی
زباں سے پیار کے دعوے، دلوں میں کینہ پروری
وفا کے باب کو لوگوں نے کیسا بے زباں رکھ دی
یہاں ہر چہرہ آئینہ لگے لیکن حقیقت میں
عداوت کو نقابوں کے پسِ پردہ نہاں رکھ دی
خدا کا نام لے کر بھی ستم جاری رکھا لوگوں نے
عبادت کے بہانے ظلم کو رسمِ جہاں رکھ دی
میں ٹوٹا تو غموں کے بوجھ سے لیکن یہ حیرانی
کہ اُس نے بے نیازی کو ہی قسمت کی زباں رکھ دی
سفر کے راستوں پر روشنی باقی نہ تھی مظہرؔ
چراغِ دل کو کس نے آندھیوں میں مہرباں رکھ دی MAZHAR IQBAL GONDAL
برسوں جو سر پہ تھا مرے قرضہ چُکا دیا برسوں جو سر پہ تھا مرے قرضہ چُکا دیا
اس نے حسابِ عشق کا یکجا صلہ دیا
دھوپوں کے درمیاں مجھے چھاؤں عطا ہوئی
اک پیڑ نے سکون کا سایہ بسا دیا
یادوں کے زخم دل پہ ہمیشہ رہے مگر
قسمت نے غم کے بعد سکوں کا پتا دیا
اک یار نے بھی زخم دئیے دوستی کے بیچ
پھر زہر کو بھی پی کے وفا کا مزا دیا
اندھیروں میں بھٹکتا رہا میں برسوں تلک
اک شمع نے اُمید کا روشن دیا دیا
اندھیری راہ تھی، کوئی ساتھی نہ مل سکا
اک شمعِ دل نے خود ہی سفر کو جلا دیا
مظہرؔ وفا کے بوجھ کو سب جان سے ڈریں
لیکن تو نے تو عشق میں اس کو ادا دیا MAZHAR IQBAL GONDAL
اس نے حسابِ عشق کا یکجا صلہ دیا
دھوپوں کے درمیاں مجھے چھاؤں عطا ہوئی
اک پیڑ نے سکون کا سایہ بسا دیا
یادوں کے زخم دل پہ ہمیشہ رہے مگر
قسمت نے غم کے بعد سکوں کا پتا دیا
اک یار نے بھی زخم دئیے دوستی کے بیچ
پھر زہر کو بھی پی کے وفا کا مزا دیا
اندھیروں میں بھٹکتا رہا میں برسوں تلک
اک شمع نے اُمید کا روشن دیا دیا
اندھیری راہ تھی، کوئی ساتھی نہ مل سکا
اک شمعِ دل نے خود ہی سفر کو جلا دیا
مظہرؔ وفا کے بوجھ کو سب جان سے ڈریں
لیکن تو نے تو عشق میں اس کو ادا دیا MAZHAR IQBAL GONDAL
محبتوں کا نہیں ہے کوئی بھی آغاز الفاظ محبتوں کا نہیں ہے کوئی بھی آغاز الفاظ
بیاں میں ڈھل نہیں سکتے دل کے اعجاز الفاظ
غریب دل کی صدا کو کون ہے سنتا یہاں پر
کہ بکھر کے رہ گئے سب غموں کے انداز الفاظ
کبھی وہ زخم بھرتے ہیں کبھی وہ خون رلاتے
کبھی بنا کے دکھاتے ہیں دل کا ساز الفاظ
یہ حرف، خواب کی صورت اُترتے ہیں نگاہوں میں
کبھی بناتے ہیں منزل کبھی چھپاتے ہیں راز الفاظ
سکوت توڑ کے اکثر وہ خود ہی رو پڑتے ہیں
لکھا ہوا ہے مقدر میں ہر دم ساز الفاظ
جلا کے دل کی کتابوں کو خاک کرتے ہیں
جہاں کے ہر سفر میں رہے ہیں ہمرکاب الفاظ
یہ شاعری ہے حقیقت کی اک جمی ہوئی تصویر
کہ روشنی بھی لٹاتے ہیں جیسے پرواز الفاظ
مظہرؔ کی فکر ہے روشن چراغِ دل کی طرح
وہ ڈھونڈ لیتا ہے سب درد کا بھی ساز الفاظ MAZHAR IQBAL GONDAL
بیاں میں ڈھل نہیں سکتے دل کے اعجاز الفاظ
غریب دل کی صدا کو کون ہے سنتا یہاں پر
کہ بکھر کے رہ گئے سب غموں کے انداز الفاظ
کبھی وہ زخم بھرتے ہیں کبھی وہ خون رلاتے
کبھی بنا کے دکھاتے ہیں دل کا ساز الفاظ
یہ حرف، خواب کی صورت اُترتے ہیں نگاہوں میں
کبھی بناتے ہیں منزل کبھی چھپاتے ہیں راز الفاظ
سکوت توڑ کے اکثر وہ خود ہی رو پڑتے ہیں
لکھا ہوا ہے مقدر میں ہر دم ساز الفاظ
جلا کے دل کی کتابوں کو خاک کرتے ہیں
جہاں کے ہر سفر میں رہے ہیں ہمرکاب الفاظ
یہ شاعری ہے حقیقت کی اک جمی ہوئی تصویر
کہ روشنی بھی لٹاتے ہیں جیسے پرواز الفاظ
مظہرؔ کی فکر ہے روشن چراغِ دل کی طرح
وہ ڈھونڈ لیتا ہے سب درد کا بھی ساز الفاظ MAZHAR IQBAL GONDAL
" غزل " وہ جو بِچھڑا، تو کوئی حَرف نہ بولا میں نے
لَب بھی خاموش تھے، آنکھوں سے بِیاں کرتے رہے
کون کِس دِل کی تَمَنّا ہے، یہ معلوم نہیں
خود کو کھو دینا بھی کُچھ لوگ وَفا کہتے رہے
راستے چُپ تھے، نہ ہم ساتھ چَلے، نہ وہ رُکے
کُچھ قَدم، کُچھ گھڑی یاد میں جَلتے رہے
وہ کِسی اور کی دُنیا کا مُسافر ٹھَہرا
ہم تو سایہ ہی رہے، دھُوپ سہی کرتے رہے
اب نہ وہ نام لَبوں پر ہے، نہ خواہش باقی
پھر بھی ہم خَواب میں اَکثر اُسے مِلتے رہے
میں نے مَظہرؔ نہ کبھی زَخم دِکھائے دِل کے
دَرد سِینے میں چھُپا کر ہی دُعا کرتے رہے MAZHAR IQBAL GONDAL
لَب بھی خاموش تھے، آنکھوں سے بِیاں کرتے رہے
کون کِس دِل کی تَمَنّا ہے، یہ معلوم نہیں
خود کو کھو دینا بھی کُچھ لوگ وَفا کہتے رہے
راستے چُپ تھے، نہ ہم ساتھ چَلے، نہ وہ رُکے
کُچھ قَدم، کُچھ گھڑی یاد میں جَلتے رہے
وہ کِسی اور کی دُنیا کا مُسافر ٹھَہرا
ہم تو سایہ ہی رہے، دھُوپ سہی کرتے رہے
اب نہ وہ نام لَبوں پر ہے، نہ خواہش باقی
پھر بھی ہم خَواب میں اَکثر اُسے مِلتے رہے
میں نے مَظہرؔ نہ کبھی زَخم دِکھائے دِل کے
دَرد سِینے میں چھُپا کر ہی دُعا کرتے رہے MAZHAR IQBAL GONDAL
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ ضو فگن ہے در پہ آقاؐ کے دلوں پر جو قبض
راستہ وہی ہے جس پر ہے نبیؐ کی خوشہ قبض
ضبط میں ہے اشک، مگر لب پہ درودوں کی عرض
کیا ہے ہم نے دل کی گہرائی سے نعتوں کی عرض
ضو کی خیرات ملی، جب درِ سرکارؐ پہ آئے
پھر نہ لوٹی خالی جھولی، ہو گئی ساری قرض
ضد تھی قسمت کی، نہ منزل، نہ سکونِ دل ملا
جب تلک در سے نبیؐ کے ہو نہ پایا ہم کو بعض
ضعف میں بھی ہے طلب اُنؐ کی رضا پانے کی غرض
یہی حسرت ہے کہ لکھ جائے درودوں کی غرض
ضمیر کہتا ہے مظہرؔ، اُنؐ سے جو نسبت ملی
بن گیا راحت، شفا، ہر درد و دُکھ کا وہ مرض
ضو کے صدقے ہو عطا مظہرؔ پہ بخشش کا عوض
آخرت میں بس وہی نعمت ہو جنت کا عوض MAZHAR IQBAL GONDAL
راستہ وہی ہے جس پر ہے نبیؐ کی خوشہ قبض
ضبط میں ہے اشک، مگر لب پہ درودوں کی عرض
کیا ہے ہم نے دل کی گہرائی سے نعتوں کی عرض
ضو کی خیرات ملی، جب درِ سرکارؐ پہ آئے
پھر نہ لوٹی خالی جھولی، ہو گئی ساری قرض
ضد تھی قسمت کی، نہ منزل، نہ سکونِ دل ملا
جب تلک در سے نبیؐ کے ہو نہ پایا ہم کو بعض
ضعف میں بھی ہے طلب اُنؐ کی رضا پانے کی غرض
یہی حسرت ہے کہ لکھ جائے درودوں کی غرض
ضمیر کہتا ہے مظہرؔ، اُنؐ سے جو نسبت ملی
بن گیا راحت، شفا، ہر درد و دُکھ کا وہ مرض
ضو کے صدقے ہو عطا مظہرؔ پہ بخشش کا عوض
آخرت میں بس وہی نعمت ہو جنت کا عوض MAZHAR IQBAL GONDAL
کوئی راز اپنے غَموں کا مَت ہمیں بے سَبَب کبھی کہہ نہ دے کوئی راز اپنے غَموں کا مَت ہمیں بے سَبَب کبھی کہہ نہ دے
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
تُمہاری یاد میں دِل کا نِظام کس کا تھا تُمہاری یاد میں دِل کا نِظام کس کا تھا؟
یہ اِضطراب، یہ شوقِ دَوام کس کا تھا؟
جو بے نَقاب ہوا خواب میں، بتایا نہیں،
یہ حُسن، یہ نگہِ خوش کَلام کس کا تھا؟
سَکوتِ شَب میں جو دِل کو جَلا گیا آخر،
چَراغ کون تھا، شُعلۂ خام کس کا تھا؟
تُمہارے بعد جو تَنہائی کا سَفر گُزرا،
ہر ایک موڑ پہ سایہ، سَلام کس کا تھا؟
جو لَب ہِلے نہ کبھی، اَشک بَن کے بَہتا رہا،
وہ غَم تُمہارا تھا یا میرا نام کس کا تھا؟
جو زَخم دے کے بھی چُپ تھا، وہ شَخص کیسا تھا؟
نہ پُوچھ مجھ سے، وُہی اِنتقام کس کا تھا؟
دھُواں تھا دِل میں، مَگر روشنی سی باقی تھی،
جَلا جو خواب، وُہی احتشام کس کا تھا؟
جو زِندگی کو بِکھرنے سے روک لیتا تھا،
وہ حَرف، وہ دُعا، وہ کَلام کس کا تھا؟
سُنے بغیر جو خاموش ہو گیا مظہرؔ،
وہ آخری سا دِل آشوب جام کس کا تھا؟
نَظر میں عَکس رہا، دِل میں چُپ سا طُوفاں تھا،
یہ بے قَراری، یہ وَجد و قیام کس کا تھا؟
جو دَستِ غیر سے خط بھی ملا تو حَیرت تھی،
بِکھرتے حَرف میں وہ اِحترام کس کا تھا؟
کہیں سے آئی صَدا، اور سَب لَرز سے گئے،
یہ کَیف، یہ اَثر، یہ پَیام کس کا تھا؟
تُمہیں جو کہتے ہیں مظہرؔ وَفا سے دُور ہوا،
بَتاؤ ان کو، وُہی تو غُلام کس کا تھا؟ MAZHAR IQBAL GONDAL
یہ اِضطراب، یہ شوقِ دَوام کس کا تھا؟
جو بے نَقاب ہوا خواب میں، بتایا نہیں،
یہ حُسن، یہ نگہِ خوش کَلام کس کا تھا؟
سَکوتِ شَب میں جو دِل کو جَلا گیا آخر،
چَراغ کون تھا، شُعلۂ خام کس کا تھا؟
تُمہارے بعد جو تَنہائی کا سَفر گُزرا،
ہر ایک موڑ پہ سایہ، سَلام کس کا تھا؟
جو لَب ہِلے نہ کبھی، اَشک بَن کے بَہتا رہا،
وہ غَم تُمہارا تھا یا میرا نام کس کا تھا؟
جو زَخم دے کے بھی چُپ تھا، وہ شَخص کیسا تھا؟
نہ پُوچھ مجھ سے، وُہی اِنتقام کس کا تھا؟
دھُواں تھا دِل میں، مَگر روشنی سی باقی تھی،
جَلا جو خواب، وُہی احتشام کس کا تھا؟
جو زِندگی کو بِکھرنے سے روک لیتا تھا،
وہ حَرف، وہ دُعا، وہ کَلام کس کا تھا؟
سُنے بغیر جو خاموش ہو گیا مظہرؔ،
وہ آخری سا دِل آشوب جام کس کا تھا؟
نَظر میں عَکس رہا، دِل میں چُپ سا طُوفاں تھا،
یہ بے قَراری، یہ وَجد و قیام کس کا تھا؟
جو دَستِ غیر سے خط بھی ملا تو حَیرت تھی،
بِکھرتے حَرف میں وہ اِحترام کس کا تھا؟
کہیں سے آئی صَدا، اور سَب لَرز سے گئے،
یہ کَیف، یہ اَثر، یہ پَیام کس کا تھا؟
تُمہیں جو کہتے ہیں مظہرؔ وَفا سے دُور ہوا،
بَتاؤ ان کو، وُہی تو غُلام کس کا تھا؟ MAZHAR IQBAL GONDAL
شورِ ہجراں کی کوئی ساعَت اگر روشن نہیں ہوتی شورِ ہجراں کی کوئی ساعَت اگر روشن نہیں ہوتی
اَشک آنکھوں میں رہیں لیکن نَظر روشن نہیں ہوتی۔
دِل کو تَسکینِ تَمنا بھی تو حاصِل کب ہوئی مظہرؔ
چاہ ہو جتنی بھی گہری، مُعتبر روشن نہیں ہوتی۔
جِس طرف دیکھو، اَندھیرا سا بَسا ہوتا ہے دِل میں،
دَرد کی بَستیوں کی کوئی دیوار روشن نہیں ہوتی۔
یاد کی شَمعیں جلاتے ہیں، مگر وہ لُو بُجھاتی،
زِندگی کی دھُوپ میں یہ شُعلہ گر روشن نہیں ہوتی۔
سَچ تو یہ ہے خواب بھی اَب ہم سے روٹھے روٹھے ہیں،
نیند آتی ہے مگر وہ چشمِ تَر روشن نہیں ہوتی۔
تم نہیں ہو، ہم نہیں ہیں، اور نہ وہ لَمحے رَہے،
وَرنہ یوں ہر بات کی اَیسی خَبر روشن نہیں ہوتی۔
دوستی، اُلفَت، مُحبت سَب سَزا کے نام سے،
دِل پہ جو گُزری وہ کِسی دَفتَر روشن نہیں ہوتی۔
مظہرؔ اَب ہر شخص جیسے آئنے سے ڈَر گیا،
کاش سَچ کہنے کی بھی کوئی ہُنر روشن نہیں ہوتی۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
اَشک آنکھوں میں رہیں لیکن نَظر روشن نہیں ہوتی۔
دِل کو تَسکینِ تَمنا بھی تو حاصِل کب ہوئی مظہرؔ
چاہ ہو جتنی بھی گہری، مُعتبر روشن نہیں ہوتی۔
جِس طرف دیکھو، اَندھیرا سا بَسا ہوتا ہے دِل میں،
دَرد کی بَستیوں کی کوئی دیوار روشن نہیں ہوتی۔
یاد کی شَمعیں جلاتے ہیں، مگر وہ لُو بُجھاتی،
زِندگی کی دھُوپ میں یہ شُعلہ گر روشن نہیں ہوتی۔
سَچ تو یہ ہے خواب بھی اَب ہم سے روٹھے روٹھے ہیں،
نیند آتی ہے مگر وہ چشمِ تَر روشن نہیں ہوتی۔
تم نہیں ہو، ہم نہیں ہیں، اور نہ وہ لَمحے رَہے،
وَرنہ یوں ہر بات کی اَیسی خَبر روشن نہیں ہوتی۔
دوستی، اُلفَت، مُحبت سَب سَزا کے نام سے،
دِل پہ جو گُزری وہ کِسی دَفتَر روشن نہیں ہوتی۔
مظہرؔ اَب ہر شخص جیسے آئنے سے ڈَر گیا،
کاش سَچ کہنے کی بھی کوئی ہُنر روشن نہیں ہوتی۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
بَرگِ آوارہ ہوں، سینے سے لگا لے مجھ کو بَرگِ آوارہ ہوں، سینے سے لگا لے مجھ کو
میری بِکھری ہوئی ہَستی میں سجا لے مجھ کو۔
یہ زمانہ مجھے ہر موڑ پہ ٹھوکر دے گا،
اے مُحبت! تُو کہیں جا کے بَچا لے مجھ کو۔
ہر صَدا بَن کے صَداکار بھَٹکتا ہوں میں،
کبھی خاموش مُحبت سے دِکھا لے مجھ کو۔
کبھی مَحسوس کیا تُو نے مِرے دَرد کی دھُن؟
آکر دَرد کے سُر میں کبھی گا لے مجھ کو۔
کیا پَتا اور کہاں جاؤں میں دُنیا سے اَلگ،
کوئی رَستہ نہ ملے تو تُو بُلا لے مجھ کو۔
میرے دامن میں فقط زَخم ہی زادِ سفر،
تُو اگر چاہے تو ہنستے ہوۓ چھُپا لے مجھ کو۔
مجھ کو مظہرؔ کبھی خوشبو سا بِکھر جانا ہے،
پھُول کی طرح تُو ہاتھوں میں تَھما لے مجھ کو۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
میری بِکھری ہوئی ہَستی میں سجا لے مجھ کو۔
یہ زمانہ مجھے ہر موڑ پہ ٹھوکر دے گا،
اے مُحبت! تُو کہیں جا کے بَچا لے مجھ کو۔
ہر صَدا بَن کے صَداکار بھَٹکتا ہوں میں،
کبھی خاموش مُحبت سے دِکھا لے مجھ کو۔
کبھی مَحسوس کیا تُو نے مِرے دَرد کی دھُن؟
آکر دَرد کے سُر میں کبھی گا لے مجھ کو۔
کیا پَتا اور کہاں جاؤں میں دُنیا سے اَلگ،
کوئی رَستہ نہ ملے تو تُو بُلا لے مجھ کو۔
میرے دامن میں فقط زَخم ہی زادِ سفر،
تُو اگر چاہے تو ہنستے ہوۓ چھُپا لے مجھ کو۔
مجھ کو مظہرؔ کبھی خوشبو سا بِکھر جانا ہے،
پھُول کی طرح تُو ہاتھوں میں تَھما لے مجھ کو۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
پہلے محبت پھر روگ اور اب بیماری بن گئی ہے پہلے محبت پھر روگ اور اب بیماری بن گئی ہے
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
بے وفائی کا یوں صلہ دیں گے بے وفائی کا یوں صلہ دیں گے
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے MAZHAR IQBAL GONDAL
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے MAZHAR IQBAL GONDAL
جینے کی خواہشیں بھی بجھنے لگی ہیں اب جینے کی خواہشیں بھی بجھنے لگی ہیں اب
دل کو نہیں قبول کوئی بھی صدا، بنا تیرے
خوابوں کی روشنی بھی لگتی ہے بے اثر
آنکھوں میں جو اترتا تھا وہ تھا، بنا تیرے
تنہائی میرے ساتھ اب رہنے لگی ہے یوں
جیسے کوئی رشتہ ہو گیا ہو بنا تیرے
لَمسِ ہوا میں بھی وہ حرارت نہیں رہی
جس میں کبھی مہکتا تھا دل کا دِیا، بنا تیرے
سُنسان ہر گلی ہے، اُدھورا ہے ہر سفر
پایا نہیں سکون کا راستا، بنا تیرے
ذکرِ وفا ہو یا کوئی وعدہءِ دیرپا
سب کچھ ہے میرے سامنے، کیا ہے بنا تیرے؟
اب بھی کبھی کبھی یہ سوال کرتا ہوں
مظہر، کچھ بھی رہ گیا ہے میرا تیرے بنا؟ MAZHAR IQBAL GONDAL
دل کو نہیں قبول کوئی بھی صدا، بنا تیرے
خوابوں کی روشنی بھی لگتی ہے بے اثر
آنکھوں میں جو اترتا تھا وہ تھا، بنا تیرے
تنہائی میرے ساتھ اب رہنے لگی ہے یوں
جیسے کوئی رشتہ ہو گیا ہو بنا تیرے
لَمسِ ہوا میں بھی وہ حرارت نہیں رہی
جس میں کبھی مہکتا تھا دل کا دِیا، بنا تیرے
سُنسان ہر گلی ہے، اُدھورا ہے ہر سفر
پایا نہیں سکون کا راستا، بنا تیرے
ذکرِ وفا ہو یا کوئی وعدہءِ دیرپا
سب کچھ ہے میرے سامنے، کیا ہے بنا تیرے؟
اب بھی کبھی کبھی یہ سوال کرتا ہوں
مظہر، کچھ بھی رہ گیا ہے میرا تیرے بنا؟ MAZHAR IQBAL GONDAL
" کردار کی خوشبو " تو عطر سے مہکے یہ تیرا شوق ہے لیکن ,
میری حسرت ہے تیرے کردار سے خوشبو آئے ۔
بدن پہ ریشمی کپڑے، زباں پر ذکرِ وحدت ,
خدا کرے کبھی گفتار سے خوشبو آئے ۔
محبّت جس میں سچ ہو، دل میں دردِ خلق رکھے ,
مجھے وہ شخص گفتار سے خوشبو آئے ۔
نمازیں، روزے، حج سب خوب ہیں، لیکن ,
نفس کی راہ میں تکرار سے خوشبو آئے ۔
ادب میں، ظرف میں، لہجے میں کچھ نرمی ہو لازم ,
کہ دل کی خاک پر اقرار سے خوشبو آئے ۔
نہ ہو تسبیح، سجدہ، اور نہ ہو واعظ کا خطبہ ,
اگر ہو پیار، تو کردار سے خوشبو آئے ۔
مظہر کا یہ عقیدہ ہے خوشبو صرف عطر نہیں ,
کبھی انسان کی رفتار سے خوشبو آئے ۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
میری حسرت ہے تیرے کردار سے خوشبو آئے ۔
بدن پہ ریشمی کپڑے، زباں پر ذکرِ وحدت ,
خدا کرے کبھی گفتار سے خوشبو آئے ۔
محبّت جس میں سچ ہو، دل میں دردِ خلق رکھے ,
مجھے وہ شخص گفتار سے خوشبو آئے ۔
نمازیں، روزے، حج سب خوب ہیں، لیکن ,
نفس کی راہ میں تکرار سے خوشبو آئے ۔
ادب میں، ظرف میں، لہجے میں کچھ نرمی ہو لازم ,
کہ دل کی خاک پر اقرار سے خوشبو آئے ۔
نہ ہو تسبیح، سجدہ، اور نہ ہو واعظ کا خطبہ ,
اگر ہو پیار، تو کردار سے خوشبو آئے ۔
مظہر کا یہ عقیدہ ہے خوشبو صرف عطر نہیں ,
کبھی انسان کی رفتار سے خوشبو آئے ۔ MAZHAR IQBAL GONDAL