Poetries by MAZHAR IQBAL GONDAL
کوئی راز اپنے غَموں کا مَت ہمیں بے سَبَب کبھی کہہ نہ دے کوئی راز اپنے غَموں کا مَت ہمیں بے سَبَب کبھی کہہ نہ دے
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
تُمہاری یاد میں دِل کا نِظام کس کا تھا تُمہاری یاد میں دِل کا نِظام کس کا تھا؟
یہ اِضطراب، یہ شوقِ دَوام کس کا تھا؟
جو بے نَقاب ہوا خواب میں، بتایا نہیں،
یہ حُسن، یہ نگہِ خوش کَلام کس کا تھا؟
سَکوتِ شَب میں جو دِل کو جَلا گیا آخر،
چَراغ کون تھا، شُعلۂ خام کس کا تھا؟
تُمہارے بعد جو تَنہائی کا سَفر گُزرا،
ہر ایک موڑ پہ سایہ، سَلام کس کا تھا؟
جو لَب ہِلے نہ کبھی، اَشک بَن کے بَہتا رہا،
وہ غَم تُمہارا تھا یا میرا نام کس کا تھا؟
جو زَخم دے کے بھی چُپ تھا، وہ شَخص کیسا تھا؟
نہ پُوچھ مجھ سے، وُہی اِنتقام کس کا تھا؟
دھُواں تھا دِل میں، مَگر روشنی سی باقی تھی،
جَلا جو خواب، وُہی احتشام کس کا تھا؟
جو زِندگی کو بِکھرنے سے روک لیتا تھا،
وہ حَرف، وہ دُعا، وہ کَلام کس کا تھا؟
سُنے بغیر جو خاموش ہو گیا مظہرؔ،
وہ آخری سا دِل آشوب جام کس کا تھا؟
نَظر میں عَکس رہا، دِل میں چُپ سا طُوفاں تھا،
یہ بے قَراری، یہ وَجد و قیام کس کا تھا؟
جو دَستِ غیر سے خط بھی ملا تو حَیرت تھی،
بِکھرتے حَرف میں وہ اِحترام کس کا تھا؟
کہیں سے آئی صَدا، اور سَب لَرز سے گئے،
یہ کَیف، یہ اَثر، یہ پَیام کس کا تھا؟
تُمہیں جو کہتے ہیں مظہرؔ وَفا سے دُور ہوا،
بَتاؤ ان کو، وُہی تو غُلام کس کا تھا؟ MAZHAR IQBAL GONDAL
یہ اِضطراب، یہ شوقِ دَوام کس کا تھا؟
جو بے نَقاب ہوا خواب میں، بتایا نہیں،
یہ حُسن، یہ نگہِ خوش کَلام کس کا تھا؟
سَکوتِ شَب میں جو دِل کو جَلا گیا آخر،
چَراغ کون تھا، شُعلۂ خام کس کا تھا؟
تُمہارے بعد جو تَنہائی کا سَفر گُزرا،
ہر ایک موڑ پہ سایہ، سَلام کس کا تھا؟
جو لَب ہِلے نہ کبھی، اَشک بَن کے بَہتا رہا،
وہ غَم تُمہارا تھا یا میرا نام کس کا تھا؟
جو زَخم دے کے بھی چُپ تھا، وہ شَخص کیسا تھا؟
نہ پُوچھ مجھ سے، وُہی اِنتقام کس کا تھا؟
دھُواں تھا دِل میں، مَگر روشنی سی باقی تھی،
جَلا جو خواب، وُہی احتشام کس کا تھا؟
جو زِندگی کو بِکھرنے سے روک لیتا تھا،
وہ حَرف، وہ دُعا، وہ کَلام کس کا تھا؟
سُنے بغیر جو خاموش ہو گیا مظہرؔ،
وہ آخری سا دِل آشوب جام کس کا تھا؟
نَظر میں عَکس رہا، دِل میں چُپ سا طُوفاں تھا،
یہ بے قَراری، یہ وَجد و قیام کس کا تھا؟
جو دَستِ غیر سے خط بھی ملا تو حَیرت تھی،
بِکھرتے حَرف میں وہ اِحترام کس کا تھا؟
کہیں سے آئی صَدا، اور سَب لَرز سے گئے،
یہ کَیف، یہ اَثر، یہ پَیام کس کا تھا؟
تُمہیں جو کہتے ہیں مظہرؔ وَفا سے دُور ہوا،
بَتاؤ ان کو، وُہی تو غُلام کس کا تھا؟ MAZHAR IQBAL GONDAL
شورِ ہجراں کی کوئی ساعَت اگر روشن نہیں ہوتی شورِ ہجراں کی کوئی ساعَت اگر روشن نہیں ہوتی
اَشک آنکھوں میں رہیں لیکن نَظر روشن نہیں ہوتی۔
دِل کو تَسکینِ تَمنا بھی تو حاصِل کب ہوئی مظہرؔ
چاہ ہو جتنی بھی گہری، مُعتبر روشن نہیں ہوتی۔
جِس طرف دیکھو، اَندھیرا سا بَسا ہوتا ہے دِل میں،
دَرد کی بَستیوں کی کوئی دیوار روشن نہیں ہوتی۔
یاد کی شَمعیں جلاتے ہیں، مگر وہ لُو بُجھاتی،
زِندگی کی دھُوپ میں یہ شُعلہ گر روشن نہیں ہوتی۔
سَچ تو یہ ہے خواب بھی اَب ہم سے روٹھے روٹھے ہیں،
نیند آتی ہے مگر وہ چشمِ تَر روشن نہیں ہوتی۔
تم نہیں ہو، ہم نہیں ہیں، اور نہ وہ لَمحے رَہے،
وَرنہ یوں ہر بات کی اَیسی خَبر روشن نہیں ہوتی۔
دوستی، اُلفَت، مُحبت سَب سَزا کے نام سے،
دِل پہ جو گُزری وہ کِسی دَفتَر روشن نہیں ہوتی۔
مظہرؔ اَب ہر شخص جیسے آئنے سے ڈَر گیا،
کاش سَچ کہنے کی بھی کوئی ہُنر روشن نہیں ہوتی۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
اَشک آنکھوں میں رہیں لیکن نَظر روشن نہیں ہوتی۔
دِل کو تَسکینِ تَمنا بھی تو حاصِل کب ہوئی مظہرؔ
چاہ ہو جتنی بھی گہری، مُعتبر روشن نہیں ہوتی۔
جِس طرف دیکھو، اَندھیرا سا بَسا ہوتا ہے دِل میں،
دَرد کی بَستیوں کی کوئی دیوار روشن نہیں ہوتی۔
یاد کی شَمعیں جلاتے ہیں، مگر وہ لُو بُجھاتی،
زِندگی کی دھُوپ میں یہ شُعلہ گر روشن نہیں ہوتی۔
سَچ تو یہ ہے خواب بھی اَب ہم سے روٹھے روٹھے ہیں،
نیند آتی ہے مگر وہ چشمِ تَر روشن نہیں ہوتی۔
تم نہیں ہو، ہم نہیں ہیں، اور نہ وہ لَمحے رَہے،
وَرنہ یوں ہر بات کی اَیسی خَبر روشن نہیں ہوتی۔
دوستی، اُلفَت، مُحبت سَب سَزا کے نام سے،
دِل پہ جو گُزری وہ کِسی دَفتَر روشن نہیں ہوتی۔
مظہرؔ اَب ہر شخص جیسے آئنے سے ڈَر گیا،
کاش سَچ کہنے کی بھی کوئی ہُنر روشن نہیں ہوتی۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
بَرگِ آوارہ ہوں، سینے سے لگا لے مجھ کو بَرگِ آوارہ ہوں، سینے سے لگا لے مجھ کو
میری بِکھری ہوئی ہَستی میں سجا لے مجھ کو۔
یہ زمانہ مجھے ہر موڑ پہ ٹھوکر دے گا،
اے مُحبت! تُو کہیں جا کے بَچا لے مجھ کو۔
ہر صَدا بَن کے صَداکار بھَٹکتا ہوں میں،
کبھی خاموش مُحبت سے دِکھا لے مجھ کو۔
کبھی مَحسوس کیا تُو نے مِرے دَرد کی دھُن؟
آکر دَرد کے سُر میں کبھی گا لے مجھ کو۔
کیا پَتا اور کہاں جاؤں میں دُنیا سے اَلگ،
کوئی رَستہ نہ ملے تو تُو بُلا لے مجھ کو۔
میرے دامن میں فقط زَخم ہی زادِ سفر،
تُو اگر چاہے تو ہنستے ہوۓ چھُپا لے مجھ کو۔
مجھ کو مظہرؔ کبھی خوشبو سا بِکھر جانا ہے،
پھُول کی طرح تُو ہاتھوں میں تَھما لے مجھ کو۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
میری بِکھری ہوئی ہَستی میں سجا لے مجھ کو۔
یہ زمانہ مجھے ہر موڑ پہ ٹھوکر دے گا،
اے مُحبت! تُو کہیں جا کے بَچا لے مجھ کو۔
ہر صَدا بَن کے صَداکار بھَٹکتا ہوں میں،
کبھی خاموش مُحبت سے دِکھا لے مجھ کو۔
کبھی مَحسوس کیا تُو نے مِرے دَرد کی دھُن؟
آکر دَرد کے سُر میں کبھی گا لے مجھ کو۔
کیا پَتا اور کہاں جاؤں میں دُنیا سے اَلگ،
کوئی رَستہ نہ ملے تو تُو بُلا لے مجھ کو۔
میرے دامن میں فقط زَخم ہی زادِ سفر،
تُو اگر چاہے تو ہنستے ہوۓ چھُپا لے مجھ کو۔
مجھ کو مظہرؔ کبھی خوشبو سا بِکھر جانا ہے،
پھُول کی طرح تُو ہاتھوں میں تَھما لے مجھ کو۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
پہلے محبت پھر روگ اور اب بیماری بن گئی ہے پہلے محبت پھر روگ اور اب بیماری بن گئی ہے
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
بے وفائی کا یوں صلہ دیں گے بے وفائی کا یوں صلہ دیں گے
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے MAZHAR IQBAL GONDAL
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے MAZHAR IQBAL GONDAL
جینے کی خواہشیں بھی بجھنے لگی ہیں اب جینے کی خواہشیں بھی بجھنے لگی ہیں اب
دل کو نہیں قبول کوئی بھی صدا، بنا تیرے
خوابوں کی روشنی بھی لگتی ہے بے اثر
آنکھوں میں جو اترتا تھا وہ تھا، بنا تیرے
تنہائی میرے ساتھ اب رہنے لگی ہے یوں
جیسے کوئی رشتہ ہو گیا ہو بنا تیرے
لَمسِ ہوا میں بھی وہ حرارت نہیں رہی
جس میں کبھی مہکتا تھا دل کا دِیا، بنا تیرے
سُنسان ہر گلی ہے، اُدھورا ہے ہر سفر
پایا نہیں سکون کا راستا، بنا تیرے
ذکرِ وفا ہو یا کوئی وعدہءِ دیرپا
سب کچھ ہے میرے سامنے، کیا ہے بنا تیرے؟
اب بھی کبھی کبھی یہ سوال کرتا ہوں
مظہر، کچھ بھی رہ گیا ہے میرا تیرے بنا؟ MAZHAR IQBAL GONDAL
دل کو نہیں قبول کوئی بھی صدا، بنا تیرے
خوابوں کی روشنی بھی لگتی ہے بے اثر
آنکھوں میں جو اترتا تھا وہ تھا، بنا تیرے
تنہائی میرے ساتھ اب رہنے لگی ہے یوں
جیسے کوئی رشتہ ہو گیا ہو بنا تیرے
لَمسِ ہوا میں بھی وہ حرارت نہیں رہی
جس میں کبھی مہکتا تھا دل کا دِیا، بنا تیرے
سُنسان ہر گلی ہے، اُدھورا ہے ہر سفر
پایا نہیں سکون کا راستا، بنا تیرے
ذکرِ وفا ہو یا کوئی وعدہءِ دیرپا
سب کچھ ہے میرے سامنے، کیا ہے بنا تیرے؟
اب بھی کبھی کبھی یہ سوال کرتا ہوں
مظہر، کچھ بھی رہ گیا ہے میرا تیرے بنا؟ MAZHAR IQBAL GONDAL
مصیبت میں پکارتا رہا میں ہر سُو مدد کے واسطے، مصیبت میں پکارتا رہا میں ہر سُو مدد کے واسطے،
لیکن میری مدد کو میرے سِوا کوئی نہ پہنچا کبھی۔
میں تنہا جلتا رہا، لوگ تماشائی بنے رہے،
چمکتی روشنی میں میرا سایہ بھی نہ تھا کبھی۔
نہ اپنوں نے سنی دل کی صدا، نہ غیروں نے سمجھا کچھ،
غرض تنہائیوں میں دل کو چین ہی نہ آیا کبھی۔
کسی نے درد پوچھا، زخم کو محسوس بھی نہ کیا،
دلِ مجروح پر مرہم سا لفظ آیا نہ تھا کبھی۔
وفا کا نام لے کر وہ فقط وعدوں میں مصروف تھا،
جو خوابوں میں رہا، وہ خواب بھی سچ ہو نہ سکا کبھی۔
مظہرؔ کی خاک بھی شاید سوالی تھی دعاؤں کی،
لبوں سے بھی کسی کے نام اُس کا آ نہ سکا کبھی۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
لیکن میری مدد کو میرے سِوا کوئی نہ پہنچا کبھی۔
میں تنہا جلتا رہا، لوگ تماشائی بنے رہے،
چمکتی روشنی میں میرا سایہ بھی نہ تھا کبھی۔
نہ اپنوں نے سنی دل کی صدا، نہ غیروں نے سمجھا کچھ،
غرض تنہائیوں میں دل کو چین ہی نہ آیا کبھی۔
کسی نے درد پوچھا، زخم کو محسوس بھی نہ کیا،
دلِ مجروح پر مرہم سا لفظ آیا نہ تھا کبھی۔
وفا کا نام لے کر وہ فقط وعدوں میں مصروف تھا،
جو خوابوں میں رہا، وہ خواب بھی سچ ہو نہ سکا کبھی۔
مظہرؔ کی خاک بھی شاید سوالی تھی دعاؤں کی،
لبوں سے بھی کسی کے نام اُس کا آ نہ سکا کبھی۔ MAZHAR IQBAL GONDAL
اظہار محبت ہم سے روز کرتی رہتی ہے اور
اظہار محبت ہم سے روز کرتی رہتی ہے اور
آج مجھے روتا چھوڑ کے سیر پر گیؑ ہے
عید کی تیاری خوب چل رہی تھی اس کی اور
آج وہ سنگ غیر کے سمندر پر گیؑ ہے
کہتی تھی کہو تم تو نہیں جاتی میں گھومنے
کیوں روکتا میں اسے جو نہانے سمندر پر گٰیؑ ہے
سولہ برس زندگی کے لوٹانے پر بھی خوش نہیں
اس وقت گزار کا دل بہلانے سمندر پر گیؑ ہے
کچھ دن تو خاموش رہی پر آنکھوں میں کچھ تھ
لگتا تھا دل میں کوئی بات چھپی رہ گئی ہے
ہم جس کے فسانے میں جیتے رہے برسوں
وہ آج کسی اور کی کہانی کہہ گئی ہے
میں خواب سجائے بیٹھا تھا عید کے لمحوں کے
اور وہ میری نیندیں چرا کے ساحل پہ گئی ہے
تصویر میں اب بھی وہ ویسی ہی لگتی ہے
بس آنکھوں کی چمک کسی اور کے نام کی ہے
اب شہر کے رستوں سے دل ڈرنے لگا ہے
جہاں جہاں اُس کے قدموں کی گرد چھپی ہے
دکھ صرف اتنا ہے جانتی تھی کویؑ نہیں ہے میر
پھر بھی وہ غیر کا دل سہلانے سمندر پر گیؑ ہے مظہر اقبال گوندل
اظہار محبت ہم سے روز کرتی رہتی ہے اور
آج مجھے روتا چھوڑ کے سیر پر گیؑ ہے
عید کی تیاری خوب چل رہی تھی اس کی اور
آج وہ سنگ غیر کے سمندر پر گیؑ ہے
کہتی تھی کہو تم تو نہیں جاتی میں گھومنے
کیوں روکتا میں اسے جو نہانے سمندر پر گٰیؑ ہے
سولہ برس زندگی کے لوٹانے پر بھی خوش نہیں
اس وقت گزار کا دل بہلانے سمندر پر گیؑ ہے
کچھ دن تو خاموش رہی پر آنکھوں میں کچھ تھ
لگتا تھا دل میں کوئی بات چھپی رہ گئی ہے
ہم جس کے فسانے میں جیتے رہے برسوں
وہ آج کسی اور کی کہانی کہہ گئی ہے
میں خواب سجائے بیٹھا تھا عید کے لمحوں کے
اور وہ میری نیندیں چرا کے ساحل پہ گئی ہے
تصویر میں اب بھی وہ ویسی ہی لگتی ہے
بس آنکھوں کی چمک کسی اور کے نام کی ہے
اب شہر کے رستوں سے دل ڈرنے لگا ہے
جہاں جہاں اُس کے قدموں کی گرد چھپی ہے
دکھ صرف اتنا ہے جانتی تھی کویؑ نہیں ہے میر
پھر بھی وہ غیر کا دل سہلانے سمندر پر گیؑ ہے مظہر اقبال گوندل
خدا کا نام لینے سے سکوں ملتا
خدا کا نام لینے سے سکوں ملتا تھا پہلے تو
مگر اب بے دلی والے بھی تسکین دیتے ہیں
جو ہر محفل میں ہنستا تھ وہی اب چپ سا رہتا ہے
خموشی میں چھپے آنسو مجھے تحریف دیتے ہیں
جنہیں اپنا سمجھ بیٹھ وہی اپنوں سے بڑھ کر تھے
کہ اب بیگانگی والے مجھے تشریف دیتے ہیں
کبھی محرابِ دل میں روشنی تھی ذکرِ حق سے پر
مگر اب شب کے سجدے بھی مجھے تردید دیتے ہیں
یہ دنیا امتحاں ٹھہری یہ دل تو خاک ہو بیٹھ
فنا کے بعد بھی شاید وہی تعریف دیتے ہیں
کبھی جو نعتِ سرور میں جھکے تھے ہم سراپا عشق
وہی لب اب خموشی سے مجھے تنقید دیتے ہیں
کبھی دل کی زمیں پر نور کی بارش ہوا کرتی
اب آیاتِ سکینہ بھی مجھے تخصیص دیتے ہیں
جہاں ہر درد کو میں حرفِ دعا کہتا تھا پہلے
وہی لب اب شکوہِ خاموش کی تمہید دیتے ہیں
میں اپنے زخم لے کر جب گیا دربارِ محبوبؐ
تو آنکھیں اشک دے کر مجھ کو تسکین دیتے ہیں
کسی دن بخش دے گا رب یہی امید ہے باقی
یہی امید کے سائے مجھے تحفے دیتے ہیں
مساجد میں جو سجدے کرتے تھے ہم رات بھر رو کر
ابھی تک وہ ہی لمحے مجھے تحسین دیتے ہیں مظہر اقبال گوندل
خدا کا نام لینے سے سکوں ملتا تھا پہلے تو
مگر اب بے دلی والے بھی تسکین دیتے ہیں
جو ہر محفل میں ہنستا تھ وہی اب چپ سا رہتا ہے
خموشی میں چھپے آنسو مجھے تحریف دیتے ہیں
جنہیں اپنا سمجھ بیٹھ وہی اپنوں سے بڑھ کر تھے
کہ اب بیگانگی والے مجھے تشریف دیتے ہیں
کبھی محرابِ دل میں روشنی تھی ذکرِ حق سے پر
مگر اب شب کے سجدے بھی مجھے تردید دیتے ہیں
یہ دنیا امتحاں ٹھہری یہ دل تو خاک ہو بیٹھ
فنا کے بعد بھی شاید وہی تعریف دیتے ہیں
کبھی جو نعتِ سرور میں جھکے تھے ہم سراپا عشق
وہی لب اب خموشی سے مجھے تنقید دیتے ہیں
کبھی دل کی زمیں پر نور کی بارش ہوا کرتی
اب آیاتِ سکینہ بھی مجھے تخصیص دیتے ہیں
جہاں ہر درد کو میں حرفِ دعا کہتا تھا پہلے
وہی لب اب شکوہِ خاموش کی تمہید دیتے ہیں
میں اپنے زخم لے کر جب گیا دربارِ محبوبؐ
تو آنکھیں اشک دے کر مجھ کو تسکین دیتے ہیں
کسی دن بخش دے گا رب یہی امید ہے باقی
یہی امید کے سائے مجھے تحفے دیتے ہیں
مساجد میں جو سجدے کرتے تھے ہم رات بھر رو کر
ابھی تک وہ ہی لمحے مجھے تحسین دیتے ہیں مظہر اقبال گوندل
آج یہ دل کیوں پھٹ جانے پہ تل گیا ہے
خدایا عید کے دن تو بخش دینا بنتا تھا تیر
آج یہ دل کیوں پھٹ جانے پہ تل گیا ہے
نہ کچھ قرباں ہو نہ آنکھ روئی دل بھی ساکن ہے
مگر احساس ہر لمحے میں جل جانے پہ تل گیا ہے
عبادت تھی فقط عادت نہ دل سجدے میں جھکتا تھ
یہی غفلت مجھے اب تو بدل جانے پہ تل گیا ہے
نمازیں تھیں فقط رسمیں زباں پر ذکر بے معنی
مگر اندر کا خالی پن مچل جانے پہ تل گیا ہے
کفن باندھے ہوئے پھرتے ہیں خواہش کے جنازے اب
کوئی وعدہ کوئی سچ بھی تو پل جانے پہ تل گیا ہے
خُدا کی یاد میں دل نرم ہو تو عید بنتی ہے
یہ کیا جشنِ ہوس ہے جو بہل جانے پہ تل گیا ہے
مظہرؔ یہ دنِ قرباں ہے بدن کا خوں نہیں کافی
یہ دل سچّ خُدا کے در پہ جل جانے پہ تل گیا ہے مظہر اقبال گوندل
خدایا عید کے دن تو بخش دینا بنتا تھا تیر
آج یہ دل کیوں پھٹ جانے پہ تل گیا ہے
نہ کچھ قرباں ہو نہ آنکھ روئی دل بھی ساکن ہے
مگر احساس ہر لمحے میں جل جانے پہ تل گیا ہے
عبادت تھی فقط عادت نہ دل سجدے میں جھکتا تھ
یہی غفلت مجھے اب تو بدل جانے پہ تل گیا ہے
نمازیں تھیں فقط رسمیں زباں پر ذکر بے معنی
مگر اندر کا خالی پن مچل جانے پہ تل گیا ہے
کفن باندھے ہوئے پھرتے ہیں خواہش کے جنازے اب
کوئی وعدہ کوئی سچ بھی تو پل جانے پہ تل گیا ہے
خُدا کی یاد میں دل نرم ہو تو عید بنتی ہے
یہ کیا جشنِ ہوس ہے جو بہل جانے پہ تل گیا ہے
مظہرؔ یہ دنِ قرباں ہے بدن کا خوں نہیں کافی
یہ دل سچّ خُدا کے در پہ جل جانے پہ تل گیا ہے مظہر اقبال گوندل
محبت کی بے چینی
محبت سچی ہو تو پھر مکمل ہونی چاہیے
ورنہ ادھوری بات روح کو بے چین کرتی ہے
جو لب ہلتے نہیں پر آنکھ سب کچھ کہہ رہی ہوتی
یہ خامشی اکثر نگاہوں کو بھی بے چین کرتی ہے
کبھی جو خواب ہوتے ہیں فقط آنکھوں کی زینت سے
انہیں تعبیر میں لانا ہمیں بے چین کرتی ہے
جو وعدے وقت پر پورے نہ ہوں دل ٹوٹ جاتا ہے
یہ چھوٹی چھوٹی کوتاہی بڑی بے چین کرتی ہے
کہ سچ کہنا بھی ممکن ہو مگر دشوار لگتی ہے
یہ الجھن دل کے اندر کی بہت بے چین کرتی ہے
جو پل بیتے تھے اُس کے ساتھ یاد آتے ہیں اکثر
یہ ماضی کی ہوا بھی دل کو بے چین کرتی ہے
ارم کے نام سے جو دل دُعا مانگے سحر و شام
تو وہ خاموشی بھی الفت کو بے چین کرتی ہے
محبت گر ہو کاغذ پر تو جل جاتی ہے لمحوں میں
یہ سچی بات ہر جھوٹے کو بے چین کرتی ہے
اگر خود کو بھی کھو بیٹھیں کسی کی چاہ میں جا کر
تو اپنی ہی یہ پہچان بھی بے چین کرتی ہے
کوئی تو حرف ایسا ہو جو اس کا نام لے آئے
یہ خامشی کی شدت بھی ہمیں بے چین کرتی ہے
مظہر اقبال گوندل
محبت سچی ہو تو پھر مکمل ہونی چاہیے
ورنہ ادھوری بات روح کو بے چین کرتی ہے
جو لب ہلتے نہیں پر آنکھ سب کچھ کہہ رہی ہوتی
یہ خامشی اکثر نگاہوں کو بھی بے چین کرتی ہے
کبھی جو خواب ہوتے ہیں فقط آنکھوں کی زینت سے
انہیں تعبیر میں لانا ہمیں بے چین کرتی ہے
جو وعدے وقت پر پورے نہ ہوں دل ٹوٹ جاتا ہے
یہ چھوٹی چھوٹی کوتاہی بڑی بے چین کرتی ہے
کہ سچ کہنا بھی ممکن ہو مگر دشوار لگتی ہے
یہ الجھن دل کے اندر کی بہت بے چین کرتی ہے
جو پل بیتے تھے اُس کے ساتھ یاد آتے ہیں اکثر
یہ ماضی کی ہوا بھی دل کو بے چین کرتی ہے
ارم کے نام سے جو دل دُعا مانگے سحر و شام
تو وہ خاموشی بھی الفت کو بے چین کرتی ہے
محبت گر ہو کاغذ پر تو جل جاتی ہے لمحوں میں
یہ سچی بات ہر جھوٹے کو بے چین کرتی ہے
اگر خود کو بھی کھو بیٹھیں کسی کی چاہ میں جا کر
تو اپنی ہی یہ پہچان بھی بے چین کرتی ہے
کوئی تو حرف ایسا ہو جو اس کا نام لے آئے
یہ خامشی کی شدت بھی ہمیں بے چین کرتی ہے
مظہر اقبال گوندل
اس کی تیاریاں دیکھ کر مجھے ایسے لگنے لگا ہے اس کی تیاریاں دیکھ کر مجھے ایسے لگنے لگا ہے
میں اس کے رنگ میں بھنگ ڈال رہا ہوں
وہ جو میرے عکس میں اپنی مسکراہٹ ڈھونڈتا تھا
آج میں آئینے میں جھنجھال ڈال رہا ہوں
پہلے پہل وہ جو گلے سے لگاتا تھا ہر بات پر
اب اُسی کی بات پر دق ڈال رہا ہوں
میرے سچے لفظ اب اس کو لگیں الزام جیسے
اور میں سچ کی راہ میں پل ڈال رہا ہوں
جس کے ہر وعدے پہ میں جان لٹایا کرتا تھا
آج میں وفا کے بدلے تپ ڈال رہا ہوں
آج اُس کی مسکراہٹ بھی لگے زہر جیسی
میں محبت کی چھاؤں میں خل ڈال رہا ہوں
کیا قصور دل کا ہے، جو ٹوٹتا ہے بار بار؟
میں بھی اپنے آپ پر طنز ڈال رہا ہوں
مظہرؔ! سچ پوچھو تو یہ عشق بڑا نرالا ہے
جو ستم سہہ کر بھی رنگ ڈال رہا ہوں مظہر اقبال گوندل
میں اس کے رنگ میں بھنگ ڈال رہا ہوں
وہ جو میرے عکس میں اپنی مسکراہٹ ڈھونڈتا تھا
آج میں آئینے میں جھنجھال ڈال رہا ہوں
پہلے پہل وہ جو گلے سے لگاتا تھا ہر بات پر
اب اُسی کی بات پر دق ڈال رہا ہوں
میرے سچے لفظ اب اس کو لگیں الزام جیسے
اور میں سچ کی راہ میں پل ڈال رہا ہوں
جس کے ہر وعدے پہ میں جان لٹایا کرتا تھا
آج میں وفا کے بدلے تپ ڈال رہا ہوں
آج اُس کی مسکراہٹ بھی لگے زہر جیسی
میں محبت کی چھاؤں میں خل ڈال رہا ہوں
کیا قصور دل کا ہے، جو ٹوٹتا ہے بار بار؟
میں بھی اپنے آپ پر طنز ڈال رہا ہوں
مظہرؔ! سچ پوچھو تو یہ عشق بڑا نرالا ہے
جو ستم سہہ کر بھی رنگ ڈال رہا ہوں مظہر اقبال گوندل
مجھے نہ گلا ہے نہ شکوہ کسی سے
شکر الحمد للہ جو تم نے دن اپنوں کے ساتھ گزارا ہے
مجھے نہ گلا ہے نہ شکوہ کسی سے نہ کوئی دنیا میں ہمارا ہے
یہ عشق بڑا انمول خزانہ مظہرؔ جو تم پر نثارا ہے
یہ دل نہ کسی اور پر مائل نہ کوئی اور دِل کو پیارا ہے
جو زخم ملا تیرے عشق میں اے جانِ جاں وہ گوارا ہے
یہ عشق کا رستہ جو چنا ہم نے یہی سچّا سہارا ہے
یہ دل جو تمہاری نظر کا شعلہ بن کر سنوارا ہے
یہ بزمِ محبت وہ بزم ہے جس کا نہ کوئی کنارا ہے
مظہرؔ نہ گلہ کوئی ہم کو دنیا سے نہ کوئی ہمارا ہے
یہ قلب جو تیرے نام پر دھڑکا ہے یہی دل کا اشارا ہے
یہ عشق نرالا ہے مظہرؔ جو دل میں تمہارے اُتارا ہے
یہ شوق جو سینے میں جاگے وہی سچّے عشق کا سہارا ہے
یہ بزمِ وفا اپنی دنیا میں ہر سو چمکتا ستارا ہے
یہ عشق جو تم سے ملا ہے یہی عشق یہی پیارا ہے
رستے ہوں دشوار مگر پھر بھی یہی دل نے پکارا ہے
یہ راہِ محبت کا دستور سدا دل کو گوارا ہے
مظہرؔ نہ جھکا کوئی دل پھر بھی نہ کوئی شکست ہمارا ہے
یہ نغمہ جو لب پر رواں ہے بس تم ہی نے اس کو سنوارا ہے
مظہر اقبال گوندل
شکر الحمد للہ جو تم نے دن اپنوں کے ساتھ گزارا ہے
مجھے نہ گلا ہے نہ شکوہ کسی سے نہ کوئی دنیا میں ہمارا ہے
یہ عشق بڑا انمول خزانہ مظہرؔ جو تم پر نثارا ہے
یہ دل نہ کسی اور پر مائل نہ کوئی اور دِل کو پیارا ہے
جو زخم ملا تیرے عشق میں اے جانِ جاں وہ گوارا ہے
یہ عشق کا رستہ جو چنا ہم نے یہی سچّا سہارا ہے
یہ دل جو تمہاری نظر کا شعلہ بن کر سنوارا ہے
یہ بزمِ محبت وہ بزم ہے جس کا نہ کوئی کنارا ہے
مظہرؔ نہ گلہ کوئی ہم کو دنیا سے نہ کوئی ہمارا ہے
یہ قلب جو تیرے نام پر دھڑکا ہے یہی دل کا اشارا ہے
یہ عشق نرالا ہے مظہرؔ جو دل میں تمہارے اُتارا ہے
یہ شوق جو سینے میں جاگے وہی سچّے عشق کا سہارا ہے
یہ بزمِ وفا اپنی دنیا میں ہر سو چمکتا ستارا ہے
یہ عشق جو تم سے ملا ہے یہی عشق یہی پیارا ہے
رستے ہوں دشوار مگر پھر بھی یہی دل نے پکارا ہے
یہ راہِ محبت کا دستور سدا دل کو گوارا ہے
مظہرؔ نہ جھکا کوئی دل پھر بھی نہ کوئی شکست ہمارا ہے
یہ نغمہ جو لب پر رواں ہے بس تم ہی نے اس کو سنوارا ہے
مظہر اقبال گوندل
ہر ایک محبت محبت کرتا پھرتا ہے ہر ایک محبت محبت کرتا پھرتا ہے یہاں لیکن
سچ ہے کہ بہت سے محبت کے نام پر کھلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بستی کہاں سچ مِلتا ہے وفا وال
یہ جھوٹی دنیا میں اکثر اپنے دل کو برباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سچّوں کے پیچھے پھرنے والے کم ملتے
یہ لوگ تو بس دُکھ دے دِلوں کو برباد کرتے ہیں
یہ سچّے جذبوں کا گہوارہ اکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فقط شاد کرتے ہیں
یہ دنیا بس نام کی خوشیاں سچّے دلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اکثر اپنی سچّائی کو برباد کرتے ہیں
یہ خلوص کا سایا بھی اب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مطلب پرست فقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وعدوں کا موسم کب رہتا ہے گزر جاتا ہے لمحوں میں
یہ رشتوں کے نام پر اکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سچّے جذبے بھی مظہرؔ دُکھ سہتے سہتے چپ ہو جاتے
یہ لوگ تو بس اپنے مطلب سے ارشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سچّوں کے سنگ چل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھوٹ کی دُنیا والے اکثر دل ناشاد کرتے ہیں مظہراقبال گوندل
سچ ہے کہ بہت سے محبت کے نام پر کھلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بستی کہاں سچ مِلتا ہے وفا وال
یہ جھوٹی دنیا میں اکثر اپنے دل کو برباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سچّوں کے پیچھے پھرنے والے کم ملتے
یہ لوگ تو بس دُکھ دے دِلوں کو برباد کرتے ہیں
یہ سچّے جذبوں کا گہوارہ اکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فقط شاد کرتے ہیں
یہ دنیا بس نام کی خوشیاں سچّے دلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اکثر اپنی سچّائی کو برباد کرتے ہیں
یہ خلوص کا سایا بھی اب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مطلب پرست فقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وعدوں کا موسم کب رہتا ہے گزر جاتا ہے لمحوں میں
یہ رشتوں کے نام پر اکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سچّے جذبے بھی مظہرؔ دُکھ سہتے سہتے چپ ہو جاتے
یہ لوگ تو بس اپنے مطلب سے ارشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سچّوں کے سنگ چل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھوٹ کی دُنیا والے اکثر دل ناشاد کرتے ہیں مظہراقبال گوندل