Poetries by Mohammed masood
کچھ ان کی اداوں کا طلبگار بہت تھا کچھ ان کی اداوں کا طبگار بہت تھا
کچھ اپنے آنسوؤں سے مجھے پیار بہت تھا
سوچا تھا پا لیں گے اسے ایک نہ ایک دن
پہلے سی ہی محبت پہ اعتبار بہت تھا
منزل کیسے نصیب ہو تیرے پیار کی
راستہ جو تیرے گھر کا پراسرار بہت تھا
اس نے کچھ اس انداز میں اظہار کیا تھا
اقرار کم اقرار میں انکار بہت تھا
مسعود کو فقط پیار میں رسوائیاں ملیں
شاہد کہ محبت کا گناہگار بہت تھا Mohammed Masood
کچھ اپنے آنسوؤں سے مجھے پیار بہت تھا
سوچا تھا پا لیں گے اسے ایک نہ ایک دن
پہلے سی ہی محبت پہ اعتبار بہت تھا
منزل کیسے نصیب ہو تیرے پیار کی
راستہ جو تیرے گھر کا پراسرار بہت تھا
اس نے کچھ اس انداز میں اظہار کیا تھا
اقرار کم اقرار میں انکار بہت تھا
مسعود کو فقط پیار میں رسوائیاں ملیں
شاہد کہ محبت کا گناہگار بہت تھا Mohammed Masood
اس کی اہمیت بتانا بھی ضروری ہے یہ بتانا تو ضروری ہے بہت کہ اس کی اہمیت کیا ہے
اگر اس سے محبت ہے تو اظہار بھی تو ضروری ہے
اب کب تک لفظوں سے کام جاری رکھیں گے ہم
آنکھوں کی طرح جھیل میں ڈوب جانا تو ضروری ہے
اپنے جذبات کو کبھی بھی اپنے دل میں نہ دبائیں
اسے دیکھ کر پیار سے مسکرانا بھی تو ضروری ہے
اسے بار ہا کہتے رہنا بھی بہت خوبصورت ہے لیکن
اس سے محبت کے گیت گانا بھی تو ضروری ہے
کسی بھی حالت میں اس کا ہاتھ نہ چھوڑیں کبھی
محبت ہو گئی ہے اسے پورا کرنا بھی تو ضروری ہے
اب محبت میں پریشان ہونا فطری ہے، لیکن مسعود
ناراض ہو جائے تو اسے سمجھانا بھی تو ضروری ہے
محمد مسعود نوٹنگھم یو کے
اگر اس سے محبت ہے تو اظہار بھی تو ضروری ہے
اب کب تک لفظوں سے کام جاری رکھیں گے ہم
آنکھوں کی طرح جھیل میں ڈوب جانا تو ضروری ہے
اپنے جذبات کو کبھی بھی اپنے دل میں نہ دبائیں
اسے دیکھ کر پیار سے مسکرانا بھی تو ضروری ہے
اسے بار ہا کہتے رہنا بھی بہت خوبصورت ہے لیکن
اس سے محبت کے گیت گانا بھی تو ضروری ہے
کسی بھی حالت میں اس کا ہاتھ نہ چھوڑیں کبھی
محبت ہو گئی ہے اسے پورا کرنا بھی تو ضروری ہے
اب محبت میں پریشان ہونا فطری ہے، لیکن مسعود
ناراض ہو جائے تو اسے سمجھانا بھی تو ضروری ہے
محمد مسعود نوٹنگھم یو کے
ہوئے ہیں لوگ جو لاچار ہوئے ہیں لوگ جو لاچار جھوٹ بولتے ہیں
میرے ہی آگے میرے یار جھوٹ بولتے ہیں
کسی کو ان پہ ذرا سا بھی اعتبار نہیں
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں
زمانے تیری جفاؤں کا کیا گلہ کہ یہاں
میرے تو اپنے ہی طرفدار بولتے ہیں
نہ جانے کیسا ہے پردیس کو کبھی کا گیا
ادھر سے آتے ہیں جو تار جھوٹ بولتے ہیں
ملے گاچان کو میری ہار سے نہ جانے کیا
یہ کس کے کہنے پہ اغیار جھوٹ بولتے ہیں
جو لوگ سچ کے لیے جان پہ کھیلتے ہیں
وہی لوگ آج سر دار جھوٹ بولتے ہیں محمد مسعود
میرے ہی آگے میرے یار جھوٹ بولتے ہیں
کسی کو ان پہ ذرا سا بھی اعتبار نہیں
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں
زمانے تیری جفاؤں کا کیا گلہ کہ یہاں
میرے تو اپنے ہی طرفدار بولتے ہیں
نہ جانے کیسا ہے پردیس کو کبھی کا گیا
ادھر سے آتے ہیں جو تار جھوٹ بولتے ہیں
ملے گاچان کو میری ہار سے نہ جانے کیا
یہ کس کے کہنے پہ اغیار جھوٹ بولتے ہیں
جو لوگ سچ کے لیے جان پہ کھیلتے ہیں
وہی لوگ آج سر دار جھوٹ بولتے ہیں محمد مسعود
رنج غصہ گلہ تھا میرا تھا رنج، غصہ، گلہ، تھا، میرا تھا
جو بھی اس شخص کا تھا، میرا تھا
بے وفا، بد دماغ، ہر جائی
کیا نہ تھا اور کیا تھا میرا تھا
تجھ کو کیا لینا دینا ہے واعظ
وہ صنم تھا خدا تھا میرا تھا
اس کا تھا جو لٹا دیا اس نے
اس میں جو کچھ بچا تھا میرا تھا
کاش وہ اپنی جان چھڑا لیتا
میرا جو مسلہ تھا میرا تھا
کیوں کرے کوئی طنز مجھ پر
وہ برا تھا بھلا تھا میرا تھا
محمد مسعود
جو بھی اس شخص کا تھا، میرا تھا
بے وفا، بد دماغ، ہر جائی
کیا نہ تھا اور کیا تھا میرا تھا
تجھ کو کیا لینا دینا ہے واعظ
وہ صنم تھا خدا تھا میرا تھا
اس کا تھا جو لٹا دیا اس نے
اس میں جو کچھ بچا تھا میرا تھا
کاش وہ اپنی جان چھڑا لیتا
میرا جو مسلہ تھا میرا تھا
کیوں کرے کوئی طنز مجھ پر
وہ برا تھا بھلا تھا میرا تھا
محمد مسعود
صحرا کی زمینوں کو تپش ہم سے ملی ہے صحرا کی زمینوں کو تپش ہم سے ملی ہے
تسکین مگر ہم کو تیرے غم سے ملی ہے
سلجھیں نہ اگر میرے مسائل تو عجب ہے
تقدیر میری گیسوئے برہم سے ملی ہے
تم شوق شہادت میں نکل آئے گھروں سے
یہ فوج مگر صاحب عالم سے ملی ہے
تجھے ہم کیوں نہ کہیں قوم کا معمار
توقیر مسلماں کو تیرے دم سے ملی ہے
بس ایک ہی شے ہے جو دلا سکتی ہے جنت
یہ توبہ کی عادت ہے جو آدم سے ملی ہے
Mohammed Masood
تسکین مگر ہم کو تیرے غم سے ملی ہے
سلجھیں نہ اگر میرے مسائل تو عجب ہے
تقدیر میری گیسوئے برہم سے ملی ہے
تم شوق شہادت میں نکل آئے گھروں سے
یہ فوج مگر صاحب عالم سے ملی ہے
تجھے ہم کیوں نہ کہیں قوم کا معمار
توقیر مسلماں کو تیرے دم سے ملی ہے
بس ایک ہی شے ہے جو دلا سکتی ہے جنت
یہ توبہ کی عادت ہے جو آدم سے ملی ہے
Mohammed Masood
مدتوں سے یار کی چاہ لیے ہوئے مدتوں سے یار کی چاہ لیے ہوئے
ایک بے وفا سے پیار کی جفا لیے ہوئے
پل بھر تیرا مہمان ہوں اے زندگی تو سن
صدیوں کے بودوباش کی آنا لیے ہوئے
سہہ لیے ہیں سب ستم اس لیے کہ میں
ہوں مریض عشق کی حیا لیے ہوئے
ہر ہاتھ میں ہے سنگ شاہد یہی وجہ
آیا ہوں تیرے شہر میں وفا لیے ہوئے
ہے آس تیرے گھر کی تیرا فقیر ہوں
جاؤں گا کس کے در پہ صدا لیے ہوئے Mohammed Masood
ایک بے وفا سے پیار کی جفا لیے ہوئے
پل بھر تیرا مہمان ہوں اے زندگی تو سن
صدیوں کے بودوباش کی آنا لیے ہوئے
سہہ لیے ہیں سب ستم اس لیے کہ میں
ہوں مریض عشق کی حیا لیے ہوئے
ہر ہاتھ میں ہے سنگ شاہد یہی وجہ
آیا ہوں تیرے شہر میں وفا لیے ہوئے
ہے آس تیرے گھر کی تیرا فقیر ہوں
جاؤں گا کس کے در پہ صدا لیے ہوئے Mohammed Masood
جب کبھی میری یاد آئے جب کبھی میری یاد آئے
تو نیم شب میں اپنی آرام گاہ سے آٹھ کر
دور اپنی نظریں ڈالنا
اگر کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی دے
تو جان لینا وہ میرا دل ہے
تمہاری نظر پڑتے ہی وہ آئے گا
اگر نہ آئے
مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا
کہ تم کسی پر نظر ڈالو
تو وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
جب کبھی میری یاد آئے تو
آواز کرتی ہوئی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں مہکتی ہوئی فضاؤں میں تمہیں ملوں گا
اپنے آنگن کے پھولوں میں مجھے ڈھونڈنا
میں صدف جیسے اوس قطروں میں تمہیں ملوں گا
اگر فضاؤں میں خوشبوؤں میں آسمانوں میں نہ پاو مجھے
تو اپنے قدموں کے نیچے دیکھنا
میں اسی جا خاک میں تمہیں ملوں گا
اگر کہیں پہ جلتا ہوا چراغ دیکھو
تو جانا کہ میں بھی اسی چراغ سے جل کر راکھ ہوا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے اس راکھ کو دریا میں ڈال دینا
میں خاک ہو کر سمندروں میں جا ملوں گا
کسی سنسان کنارے پہ ٹھہر کے تمہارا انتظار کروں گا
اگر تم کبھی سفر کے دوران وہاں سے گزرو گے
تو آواز دے دینا میں تم سے مل کر پھر
اسی نہ ختم ہونے والے سفر پہ چلا جاوں گا
Mohammed Masood
تو نیم شب میں اپنی آرام گاہ سے آٹھ کر
دور اپنی نظریں ڈالنا
اگر کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی دے
تو جان لینا وہ میرا دل ہے
تمہاری نظر پڑتے ہی وہ آئے گا
اگر نہ آئے
مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا
کہ تم کسی پر نظر ڈالو
تو وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
جب کبھی میری یاد آئے تو
آواز کرتی ہوئی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں مہکتی ہوئی فضاؤں میں تمہیں ملوں گا
اپنے آنگن کے پھولوں میں مجھے ڈھونڈنا
میں صدف جیسے اوس قطروں میں تمہیں ملوں گا
اگر فضاؤں میں خوشبوؤں میں آسمانوں میں نہ پاو مجھے
تو اپنے قدموں کے نیچے دیکھنا
میں اسی جا خاک میں تمہیں ملوں گا
اگر کہیں پہ جلتا ہوا چراغ دیکھو
تو جانا کہ میں بھی اسی چراغ سے جل کر راکھ ہوا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے اس راکھ کو دریا میں ڈال دینا
میں خاک ہو کر سمندروں میں جا ملوں گا
کسی سنسان کنارے پہ ٹھہر کے تمہارا انتظار کروں گا
اگر تم کبھی سفر کے دوران وہاں سے گزرو گے
تو آواز دے دینا میں تم سے مل کر پھر
اسی نہ ختم ہونے والے سفر پہ چلا جاوں گا
Mohammed Masood
جب کبھی میری یاد آئے تو جب کبھی میری یاد آئے
تو نیم شب میں اپنی آرام گاہ سے آٹھ کر
دور اپنی نظریں ڈالنا
اگر کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی دے
تو جان لینا وہ میرا دل ہے
تمہاری نظر پڑتے ہی وہ آئے گا
اگر نہ آئے
مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا
کہ تم کسی پر نظر ڈالو
تو وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
جب کبھی میری یاد آئے تو
آواز کرتی ہوئی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں مہکتی ہوئی فضاؤں میں تمہیں ملوں گا
اپنے آنگن کے پھولوں میں مجھے ڈھونڈنا
میں صدف جیسے اوس قطروں میں تمہیں ملوں گا
اگر فضاؤں میں خوشبوؤں میں آسمانوں میں نہ پاو مجھے
تو اپنے قدموں کے نیچے دیکھنا
میں اسی جا خاک میں تمہیں ملوں گا
اگر کہیں پہ جلتا ہوا چراغ دیکھو
تو جانا کہ میں بھی اسی چراغ سے جل کر راکھ ہوا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے اس راکھ کو دریا میں ڈال دینا
میں خاک ہو کر سمندروں میں جا ملوں گا
کسی سنسان کنارے پہ ٹھہر کے تمہارا انتظار کروں گا
اگر تم کبھی سفر کے دوران وہاں سے گزرو گے
تو آواز دے دینا میں تم سے ملر کر پھر
اسی نہ ختم ہونے والے سفر پہ چلا جاوں گا Mohammed Masood
تو نیم شب میں اپنی آرام گاہ سے آٹھ کر
دور اپنی نظریں ڈالنا
اگر کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی دے
تو جان لینا وہ میرا دل ہے
تمہاری نظر پڑتے ہی وہ آئے گا
اگر نہ آئے
مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا
کہ تم کسی پر نظر ڈالو
تو وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
جب کبھی میری یاد آئے تو
آواز کرتی ہوئی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں مہکتی ہوئی فضاؤں میں تمہیں ملوں گا
اپنے آنگن کے پھولوں میں مجھے ڈھونڈنا
میں صدف جیسے اوس قطروں میں تمہیں ملوں گا
اگر فضاؤں میں خوشبوؤں میں آسمانوں میں نہ پاو مجھے
تو اپنے قدموں کے نیچے دیکھنا
میں اسی جا خاک میں تمہیں ملوں گا
اگر کہیں پہ جلتا ہوا چراغ دیکھو
تو جانا کہ میں بھی اسی چراغ سے جل کر راکھ ہوا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے اس راکھ کو دریا میں ڈال دینا
میں خاک ہو کر سمندروں میں جا ملوں گا
کسی سنسان کنارے پہ ٹھہر کے تمہارا انتظار کروں گا
اگر تم کبھی سفر کے دوران وہاں سے گزرو گے
تو آواز دے دینا میں تم سے ملر کر پھر
اسی نہ ختم ہونے والے سفر پہ چلا جاوں گا Mohammed Masood
نہ آیا دل کو ہمارے قرار برسوں تک نہ آیا دل کو ہمارے قرار برسوں تک
کسی کا ہم کو انتظار برسوں تک
اسی نے آج محبت میں ڈے دیا دھوکا
ہمارا جس پہ رہا اعتبار برسوں تک
کسی سے دل لگانے کی یہ سزا پائی
ہماری آنکھ رہی اشک بار برسوں تک
نہ جانے توڑ کے دل کو کہاں گیا میرے
جو میرا بن کے رہا غمگسار برسوں تک
بچھڑ کے ہو گیا ویران وہ بھی اگر ہم سے
نہ دیکھی ہم نے بھی فصل بہار برسوں تک
محمد مسعود نوٹنگھم یو کے
کسی کا ہم کو انتظار برسوں تک
اسی نے آج محبت میں ڈے دیا دھوکا
ہمارا جس پہ رہا اعتبار برسوں تک
کسی سے دل لگانے کی یہ سزا پائی
ہماری آنکھ رہی اشک بار برسوں تک
نہ جانے توڑ کے دل کو کہاں گیا میرے
جو میرا بن کے رہا غمگسار برسوں تک
بچھڑ کے ہو گیا ویران وہ بھی اگر ہم سے
نہ دیکھی ہم نے بھی فصل بہار برسوں تک
محمد مسعود نوٹنگھم یو کے
راہ میں جب بھی چلنے لگتے ہیں راہ میں جب بھی چلنے لگتے ہیں
عشق کے منظر بدلنے لگتے ہیں
یاد آتی ہے مجھے جب آپ کی
اشک آنکھوں سے چھلکنے لگتے ہیں
مفلسوں کو دیکھ کر اکثر یہاں
لوگ اپنا رخ بدلنے لگتے ہیں
دشمن جاں سن کے میری گفتگو
موم کے جیسے پگھلنے لگتے ہیں
دیکھ کر معراج پہیم عشق کی
حسن کے تیور بدلنے لگتے ہیں
بارشیں ہوتی ہیں جب بھی یہاں
گلستان میں پھول کھلنے لگتے ہیں محمد مسعود نوٹنگھم یو کے
عشق کے منظر بدلنے لگتے ہیں
یاد آتی ہے مجھے جب آپ کی
اشک آنکھوں سے چھلکنے لگتے ہیں
مفلسوں کو دیکھ کر اکثر یہاں
لوگ اپنا رخ بدلنے لگتے ہیں
دشمن جاں سن کے میری گفتگو
موم کے جیسے پگھلنے لگتے ہیں
دیکھ کر معراج پہیم عشق کی
حسن کے تیور بدلنے لگتے ہیں
بارشیں ہوتی ہیں جب بھی یہاں
گلستان میں پھول کھلنے لگتے ہیں محمد مسعود نوٹنگھم یو کے
عشق کے منظر راہ میں جب بھی چلنے لگتے ہیں
عشق کے منظر بدلنے لگتے ہیں
یاد آتی ہے مجھے جب آپ کی
اشک آنکھوں سے چھلکنے لگتے ہیں
مفلسوں کو دیکھ کر اکثر یہاں
لوگ اپنا رخ بدلنے لگتے ہیں
دشمن جاں سن کے میری گفتگو
موم کے جیسے پگھلنے لگتے ہیں
دیکھ کر معراج پہیم عشق کی
حسن کے تیور بدلنے لگتے ہیں
بارشیں ہوتی ہیں جب بھی یہاں
گلستان میں پھول کھلنے لگتے ہیں Mohammed Masood
عشق کے منظر بدلنے لگتے ہیں
یاد آتی ہے مجھے جب آپ کی
اشک آنکھوں سے چھلکنے لگتے ہیں
مفلسوں کو دیکھ کر اکثر یہاں
لوگ اپنا رخ بدلنے لگتے ہیں
دشمن جاں سن کے میری گفتگو
موم کے جیسے پگھلنے لگتے ہیں
دیکھ کر معراج پہیم عشق کی
حسن کے تیور بدلنے لگتے ہیں
بارشیں ہوتی ہیں جب بھی یہاں
گلستان میں پھول کھلنے لگتے ہیں Mohammed Masood
تیرے پیار کی دھوپ ہو تیرے پیار کے سائے ہوں تیرے پیار کی دھوپ ہو تیرے پیار کے سائے ہوں
یہی موسم مجھے چاہیے سب فضاؤں کے بدلے
فقط زندگی پیار سے خلوص سے نہیں چلتی
جانے کیا کیا کرنا پڑے زمانے کی رضاوں کے بدلے
بے رخی کرو گے تو میری بات یاد رکھنا
جان چلی جائے گی تیری وفاوں کے بدلے
تیرے خیال کی قید اور نگاہوں کی یہ زنجیریں
یہ سزا اچھی لگے گی مجھ کو سب سزاوں کے بدلے Mohammed Masood
یہی موسم مجھے چاہیے سب فضاؤں کے بدلے
فقط زندگی پیار سے خلوص سے نہیں چلتی
جانے کیا کیا کرنا پڑے زمانے کی رضاوں کے بدلے
بے رخی کرو گے تو میری بات یاد رکھنا
جان چلی جائے گی تیری وفاوں کے بدلے
تیرے خیال کی قید اور نگاہوں کی یہ زنجیریں
یہ سزا اچھی لگے گی مجھ کو سب سزاوں کے بدلے Mohammed Masood
اپنے ہاتھوں سے کہیں میرا نام لکھ دینا اپنے ہاتھوں سے کہیں میرا نام لکھ دینا
تم دعا مت مانگنا صرف دعا لکھ دینا
اس قدر زمانے نے کر دیا بدنام مجھ کو
زندہ رہوں تو جینے کی سزا لکھ دینا
میں روٹھے ہوئے دوست کو مناوں کیسے
روٹھے والے یہ میری خطا لکھ دینا
جدا ہو کے تجھ سے جی لیں گے
ان مخملی ہاتھوں سے اپنی ایک دعا لکھ دینا
تم تو کہتے تھے تیرے بن جی نہ سکیں گے
بن مسعود کیسے جی رہے ہو اتنا ضرور لکھ دینا Mohammed Masood
تم دعا مت مانگنا صرف دعا لکھ دینا
اس قدر زمانے نے کر دیا بدنام مجھ کو
زندہ رہوں تو جینے کی سزا لکھ دینا
میں روٹھے ہوئے دوست کو مناوں کیسے
روٹھے والے یہ میری خطا لکھ دینا
جدا ہو کے تجھ سے جی لیں گے
ان مخملی ہاتھوں سے اپنی ایک دعا لکھ دینا
تم تو کہتے تھے تیرے بن جی نہ سکیں گے
بن مسعود کیسے جی رہے ہو اتنا ضرور لکھ دینا Mohammed Masood
بے اعتبار شخص تھا بے اعتبار شخص تھا سو وہ وار کر گیا
لیکن میرے بھروسے کو بھی داغدار کر گیا
کچھ میں نے استحصال میں گلے شکوائے کئے
کچھ وہ شکائتیں بھی میری سرے بازار کر گیا
پہلے وہ میری ذات کی تعمیر میں رہا
پھر مجھ کو اپنے ہاتھ سے مسمار کر گیا
وہ آ ملا تو فاصلے کٹتے چلے گیے مسعود
بچھڑا تو راستے میرے دشوار کر گیا Mohammed Masood
لیکن میرے بھروسے کو بھی داغدار کر گیا
کچھ میں نے استحصال میں گلے شکوائے کئے
کچھ وہ شکائتیں بھی میری سرے بازار کر گیا
پہلے وہ میری ذات کی تعمیر میں رہا
پھر مجھ کو اپنے ہاتھ سے مسمار کر گیا
وہ آ ملا تو فاصلے کٹتے چلے گیے مسعود
بچھڑا تو راستے میرے دشوار کر گیا Mohammed Masood
کچھ خوشی کے پل لے کے آئی یہ زندگی کچھ خوشی کے پل لے کے آئی یہ زندگی
پھر سے سپنے سہانے بُننے لگی یہ زندگی
میں نے کیا سوال تو جواب بن کے آئی یہ زندگی
خُشک راہوں پر پھر برسات لے کے آئی یہ زندگی
دردِ دل پر داواع بن کے آئی یہ زندگی
میں نے بڑایا ہاتھ تو تھامنے آئی یہ زندگی
میں سمجھتا رہا میں نے ہی بنائی یہ زندگی
ایک دن بچھڑ گئی پھر ہاتھ نہ آئی یہ زندگی
میرے زخم دیکھ کے مسکرائی یہ زندگی
میری ہے زندگی کہ ہے پیاری یہ زندگی Mohammed Masood
پھر سے سپنے سہانے بُننے لگی یہ زندگی
میں نے کیا سوال تو جواب بن کے آئی یہ زندگی
خُشک راہوں پر پھر برسات لے کے آئی یہ زندگی
دردِ دل پر داواع بن کے آئی یہ زندگی
میں نے بڑایا ہاتھ تو تھامنے آئی یہ زندگی
میں سمجھتا رہا میں نے ہی بنائی یہ زندگی
ایک دن بچھڑ گئی پھر ہاتھ نہ آئی یہ زندگی
میرے زخم دیکھ کے مسکرائی یہ زندگی
میری ہے زندگی کہ ہے پیاری یہ زندگی Mohammed Masood
چہرے پہ گرد پاؤں میں سفر ہے کہ نہیں ہے چہرے پہ گرد پاؤں میں سفر ہے کہ نہیں ہے
تو دیکھ میری منزل پہ نظر ہے کہ نہیں ہے
جا اپنے لیے ڈھونڈ لے کسی اہل اِے محال کو
نہ جانے میری قسمت میں گھر ہے کہ نہیں ہے
تیرے پاس ہے ابھی اور درد تو وہ بھی مجھے دو
نا پوچھ کہ مجھ میں اور صبر ہے کہ نہیں ہے
میری نیندیں تو مر چکی ہیں رات جگوں کے ہاتھ
تیرے خوابوں کو بھی کوئی ایسا ڈر ہے کہ نہیں ہے
یہ سوچ کے لے آیا ہوں میں جنگل سے کچھ جگنو
نہ جانے اب قسمت میں سحر ہے کہ نہیں ہے
تو دیکھ میرا شوق میری شکایتوں کو نہ دیکھ
پاؤں تلے تیرے گھر کی ڈگر ہے کہ نہیں ہے
مانگا ہے تجھے رب سے کہ ایک ضد سی ہے کب سے
دیکھوں تو میری دُعاؤں میں اثر ہے کہ نہیں ہی ہے Mohammed Masood
تو دیکھ میری منزل پہ نظر ہے کہ نہیں ہے
جا اپنے لیے ڈھونڈ لے کسی اہل اِے محال کو
نہ جانے میری قسمت میں گھر ہے کہ نہیں ہے
تیرے پاس ہے ابھی اور درد تو وہ بھی مجھے دو
نا پوچھ کہ مجھ میں اور صبر ہے کہ نہیں ہے
میری نیندیں تو مر چکی ہیں رات جگوں کے ہاتھ
تیرے خوابوں کو بھی کوئی ایسا ڈر ہے کہ نہیں ہے
یہ سوچ کے لے آیا ہوں میں جنگل سے کچھ جگنو
نہ جانے اب قسمت میں سحر ہے کہ نہیں ہے
تو دیکھ میرا شوق میری شکایتوں کو نہ دیکھ
پاؤں تلے تیرے گھر کی ڈگر ہے کہ نہیں ہے
مانگا ہے تجھے رب سے کہ ایک ضد سی ہے کب سے
دیکھوں تو میری دُعاؤں میں اثر ہے کہ نہیں ہی ہے Mohammed Masood
غم کی زبان بولی تو میرے آنسو نکل گئے غم کی زبان بولی تو میرے آنسو نکل گئے
بہت سے اپنے تھے جو اب بچھڑ گئے
راہ زندگی میں برباد کیا ہم نے اپنا سُکون
جب وہ ملا ہی نہیں ہم جان سے بھی گئے
راہ فراق میں لٹی دل کی میری حسرتیں
وہ اگر نہ ملے سوچا اب تو زندگی سے بھی گئے
ہمیشہ خاموشی سے بسر کی زندگی اپنی مسعود
مٹی کی خاموشی کو چرا کر نہ جانے کدھر گئے
Mohammed Masood
بہت سے اپنے تھے جو اب بچھڑ گئے
راہ زندگی میں برباد کیا ہم نے اپنا سُکون
جب وہ ملا ہی نہیں ہم جان سے بھی گئے
راہ فراق میں لٹی دل کی میری حسرتیں
وہ اگر نہ ملے سوچا اب تو زندگی سے بھی گئے
ہمیشہ خاموشی سے بسر کی زندگی اپنی مسعود
مٹی کی خاموشی کو چرا کر نہ جانے کدھر گئے
Mohammed Masood
قرض تیری جفا کا ادا کیسے کروں قرض تیری جفا کا ادا کیسے کروں
تو ہی بتا تجھ سے میں وفا کیسے کروں
جب اپنوں نے ہی لوُٹا ہے بھر کر مجھ کو
میں غیروں سے بھلا گلہ شکواہ کیسے کروں
تُجھ پہ نثار کیا تھا جسم و جاں کبھی
اب تیری بربادی کی میں دُعا کیسے کروں
کہتے ہیں سب تجھے بھولنا بھلانا ہے مناسب ہو گا
اپنے ہی سینے سے دل کو جُدا کیسے کروں
اکیلے چلنے کی عادت نا رہی مسعود کو اب
سفر زندگی کا تھا تیرے بنا کیسے کروں Mohammed Masood
تو ہی بتا تجھ سے میں وفا کیسے کروں
جب اپنوں نے ہی لوُٹا ہے بھر کر مجھ کو
میں غیروں سے بھلا گلہ شکواہ کیسے کروں
تُجھ پہ نثار کیا تھا جسم و جاں کبھی
اب تیری بربادی کی میں دُعا کیسے کروں
کہتے ہیں سب تجھے بھولنا بھلانا ہے مناسب ہو گا
اپنے ہی سینے سے دل کو جُدا کیسے کروں
اکیلے چلنے کی عادت نا رہی مسعود کو اب
سفر زندگی کا تھا تیرے بنا کیسے کروں Mohammed Masood
غم کے سائے بڑھے آتے ہیں غم کے سائے بڑھے آتے ہیں کسی قاتل کی طرح
درد میں ڈوبا ہوں میں کسی ساحل کی طرح
کوئی بھی ایسا نہیں جس کہہ سکیں حال دل ہم
آج اپنے ہی دور دیکھتے ہیں کسی منزل کی طرح
میرے مقدر میں بے بسی کے سوا کچھ بھی نہیں
ہاتھ کی لکیریں پڑھتا ہوں کسی زائل کی طرح
اندھیرے مجھ کو کیا دیں گے راہ زندگی میں
میرے دل کا ہر داغ روشن ہے کسی محفل کی طرح
غم کے ساگر میں کچھ یوں ہم ڈوبے ہیں مسعود
خوشی کی قطرے سے بھی خوف کھاتے ہیں بزدل کی طرح
Mohammed Masood
درد میں ڈوبا ہوں میں کسی ساحل کی طرح
کوئی بھی ایسا نہیں جس کہہ سکیں حال دل ہم
آج اپنے ہی دور دیکھتے ہیں کسی منزل کی طرح
میرے مقدر میں بے بسی کے سوا کچھ بھی نہیں
ہاتھ کی لکیریں پڑھتا ہوں کسی زائل کی طرح
اندھیرے مجھ کو کیا دیں گے راہ زندگی میں
میرے دل کا ہر داغ روشن ہے کسی محفل کی طرح
غم کے ساگر میں کچھ یوں ہم ڈوبے ہیں مسعود
خوشی کی قطرے سے بھی خوف کھاتے ہیں بزدل کی طرح
Mohammed Masood