Poetries by Muhammad Anwer
پیار ہو ہی جاتا کچھ دن اور وہ رابطے میں رہتی
میٹھی میٹھی اور وہ باتیں کرتی
گلاب چہرے کو وہ جو کھلا کھلا رکھتی
پیار ہو ہی جاتا ہاں پیار ہو ہی جاتا
اس باتیں یادیں تو نہ بن پاتی
نیندیں میری ہوا تو نہ ہوجاتی
سپنوں مین ایسے ٹو نہ آٹی
ارے کسی اور کی مسز تو نہ کہلاتی
کچھ دن اور رابطے میں رہتی
کسی اور کی تو نہ کہلاتی
نصیب میرے بھی جاگ جاتے
وہ جب میری مسز بن جاتی Muhammad Anwer
میٹھی میٹھی اور وہ باتیں کرتی
گلاب چہرے کو وہ جو کھلا کھلا رکھتی
پیار ہو ہی جاتا ہاں پیار ہو ہی جاتا
اس باتیں یادیں تو نہ بن پاتی
نیندیں میری ہوا تو نہ ہوجاتی
سپنوں مین ایسے ٹو نہ آٹی
ارے کسی اور کی مسز تو نہ کہلاتی
کچھ دن اور رابطے میں رہتی
کسی اور کی تو نہ کہلاتی
نصیب میرے بھی جاگ جاتے
وہ جب میری مسز بن جاتی Muhammad Anwer
اللہ تو ہی سب کچھ کرنے والا ہے اللہ
جو مانگا تو نے مجھ کو دیا ہے اللہ
میرے پاس وہ الفاظ بھی تو نہیں اللہ
تیرے شکر میں کیسے ادا کروں اللہ
مجھے معاف بھی کرتا رہنا اللہ
تو ہی تو ہے بڑا معاف کرنے والا اللہ
میرا ہی نہیں تو ہی تو ہے سب کا مالک ہے اللہ
سب کی بھی کردے سب حاجتیں پوری اللہ
سیدھی راہ پر چلاتے رہنا ہم کو ہمیشہ اللہ
ہر قدم پر ہر برائی سے بچاتے رہنا ہم سب کو اللہ
تیرا نام زبان پر دل میں خوف رکھنا ہمیشہ اللہ
توبہ کو اور ہر دعا کو قبول کرتے رہنا اللہ
درخواست بھی یہ ہی اور دعا بھی ہے یہ ہی اللہ
غلطیوں کو معاف کرکے ہمیں نوازتے رہنا اللہ Muhammad Anwer
جو مانگا تو نے مجھ کو دیا ہے اللہ
میرے پاس وہ الفاظ بھی تو نہیں اللہ
تیرے شکر میں کیسے ادا کروں اللہ
مجھے معاف بھی کرتا رہنا اللہ
تو ہی تو ہے بڑا معاف کرنے والا اللہ
میرا ہی نہیں تو ہی تو ہے سب کا مالک ہے اللہ
سب کی بھی کردے سب حاجتیں پوری اللہ
سیدھی راہ پر چلاتے رہنا ہم کو ہمیشہ اللہ
ہر قدم پر ہر برائی سے بچاتے رہنا ہم سب کو اللہ
تیرا نام زبان پر دل میں خوف رکھنا ہمیشہ اللہ
توبہ کو اور ہر دعا کو قبول کرتے رہنا اللہ
درخواست بھی یہ ہی اور دعا بھی ہے یہ ہی اللہ
غلطیوں کو معاف کرکے ہمیں نوازتے رہنا اللہ Muhammad Anwer
عجیب لوگ پیدا کردیئے ہیں زمانے نے عجیب لوگ پیدا کردیئے ہیں زمانے نے
انسانوں کی پہچان ہی مٹادی ہے زمانے نے
ہر کوئی ڈھونڈ رہا ہے انسانوں کو لوگوں میں
کس مشکل میں ڈال دیا ہے ہم کو زمانے نے
غیروں کو چھوڑو اب ہم رحم کی پہچان بھی ہوگئی مشکل
بھائی کو بھائی سے ہی دور کردیا ہے زمانے نے
زر و زمیں کے سوا کچھ بھی تو نہیں سوجھ رہا
زن تو دور ہوئی انس کی حیثیت بھی ختم کر ڈالی زمانے نے
حقوق العباد سے عاری ہوگیا یہ معاشرہ انو
کیا سے کیا ہم کو بنادیا ہے زمانے نے Muhammad Anwer
انسانوں کی پہچان ہی مٹادی ہے زمانے نے
ہر کوئی ڈھونڈ رہا ہے انسانوں کو لوگوں میں
کس مشکل میں ڈال دیا ہے ہم کو زمانے نے
غیروں کو چھوڑو اب ہم رحم کی پہچان بھی ہوگئی مشکل
بھائی کو بھائی سے ہی دور کردیا ہے زمانے نے
زر و زمیں کے سوا کچھ بھی تو نہیں سوجھ رہا
زن تو دور ہوئی انس کی حیثیت بھی ختم کر ڈالی زمانے نے
حقوق العباد سے عاری ہوگیا یہ معاشرہ انو
کیا سے کیا ہم کو بنادیا ہے زمانے نے Muhammad Anwer
میں سوچتا ہوں آخر اتنی ضدی کیوں ہے وہ میں سوچتا ہوں آخر اتنی ضدی کیوں ہے وہ
اک بار مل کر کبھی نہ ملنے کی قسم کھائی ہے وہ
یاد کرتی تو ہے مجھے بہت جانتا ہوں میں بھی
محفل میں نہ آنے کی بھی کیا قسم کھائی ہے وہ
اک غزل پڑھ کر خیال آیا مجھے اس کا پھر
بھولی ہے بہت ، بہتر ہے اگر واپس آجائے وہ
کچھ تو کشش ہوگی اس کے لفظوں میں بھی انو
بہت اچھا ہوگا اگر پھر سے لکھنا شروع کر دے وہ Muhammad Anwer
اک بار مل کر کبھی نہ ملنے کی قسم کھائی ہے وہ
یاد کرتی تو ہے مجھے بہت جانتا ہوں میں بھی
محفل میں نہ آنے کی بھی کیا قسم کھائی ہے وہ
اک غزل پڑھ کر خیال آیا مجھے اس کا پھر
بھولی ہے بہت ، بہتر ہے اگر واپس آجائے وہ
کچھ تو کشش ہوگی اس کے لفظوں میں بھی انو
بہت اچھا ہوگا اگر پھر سے لکھنا شروع کر دے وہ Muhammad Anwer
چاند جس کو سمجھتا رہا چاند تو چھپ جاتا ہے دن کے اجالوں میں
میرا چاند کہا گم ہوجاتا ہے چاندنی راتوں میں
زیست کی روشن راہ میں جو ساتھ نہ دے پائے
روشنی کیا دیگا وہ تاریک ساعتوں میں
پیار کو جو سمجھ نہ پائے زخم کھا کر بھی
کیا سمجھ پائے گا مجھ کو اپنی خوشحالی میں
ایفائے عہد تکمیل جو کر نہ پائے
کیسے بن پائے گا ساتھی زندگی میں
چاند جس کو سمجھتا رہا ہر دم جس کو انو
چھپنے والی شے تھی زمیں و آسمانوں میں Muhammad Anwer
میرا چاند کہا گم ہوجاتا ہے چاندنی راتوں میں
زیست کی روشن راہ میں جو ساتھ نہ دے پائے
روشنی کیا دیگا وہ تاریک ساعتوں میں
پیار کو جو سمجھ نہ پائے زخم کھا کر بھی
کیا سمجھ پائے گا مجھ کو اپنی خوشحالی میں
ایفائے عہد تکمیل جو کر نہ پائے
کیسے بن پائے گا ساتھی زندگی میں
چاند جس کو سمجھتا رہا ہر دم جس کو انو
چھپنے والی شے تھی زمیں و آسمانوں میں Muhammad Anwer
بہرا تھا وہ میں نے کہا مجھے نوکری چاہیئے
بہرا تھا وہ کہا کیا چوکری چاہیئے
میں نے چیخ کر کہا ملازمت چاہیئے
بولا ملامت نہ کرو بولو کیا چاہیئے
میں نے کہا پریشان ہوں میں بہت
بولا پشیمان نہ ہو بولو کیا چاہیئے
میں نے کہا مذاق نہ کرو سر نوکری دو
ڈر کر بلا قزاق بھائی بتاؤنا کیا چاہیے
میں نے کہا معاف کردو مجھے بھائی
بولا ہاں صاف کردو ، ویسے کیا چاہیئے Muhammad Anwer
بہرا تھا وہ کہا کیا چوکری چاہیئے
میں نے چیخ کر کہا ملازمت چاہیئے
بولا ملامت نہ کرو بولو کیا چاہیئے
میں نے کہا پریشان ہوں میں بہت
بولا پشیمان نہ ہو بولو کیا چاہیئے
میں نے کہا مذاق نہ کرو سر نوکری دو
ڈر کر بلا قزاق بھائی بتاؤنا کیا چاہیے
میں نے کہا معاف کردو مجھے بھائی
بولا ہاں صاف کردو ، ویسے کیا چاہیئے Muhammad Anwer
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
محبت کا اظہار بھی نہیں، نفرت کرتے بھی نہیں
دوست کے لفظ سے تو الجھتے ہیں وہ
دشمنی سے تو توبہ کرتے ہیں وہ
انسانوں کی قدر کا دعویٰ بھی کرتے ہیں
محبت کیا ہوتی ہے یہ جانتے بھی نہیں
تجربہ تو نہیں ان کو کچھ محبت کا انو
دل توڑنا مگر اچھی طرح جانتے ہیں وہ Muhammad Anwer
محبت کا اظہار بھی نہیں، نفرت کرتے بھی نہیں
دوست کے لفظ سے تو الجھتے ہیں وہ
دشمنی سے تو توبہ کرتے ہیں وہ
انسانوں کی قدر کا دعویٰ بھی کرتے ہیں
محبت کیا ہوتی ہے یہ جانتے بھی نہیں
تجربہ تو نہیں ان کو کچھ محبت کا انو
دل توڑنا مگر اچھی طرح جانتے ہیں وہ Muhammad Anwer
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
دنیا سے ناراض ہوکر
یا پھر اللہ کی پیاری بن کر
ہم کو روتا چھوڑ کر
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
ہم تو چھوٹے تھے ماں
تیرے جگر گوشے تھے ماں
پھر ایسا کیا ہوا ماں
تو کیوں ہم کو چھوڑ گئی ماں
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
گر تو ہمارے درمیاں ہوتی ماں
ہم بھی خوش ہوتے ماں
دوستوں سے ذکر کرتے تیرا
تیری شفقت کا تیری محبت کا ماں
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
تیرے محبت بھرے خوف سے
تیرے ناراض ہونے کے ڈر سے
میں بھی دوستوں کی طرح
گھر لوٹ آتا ، تیرے ڈر سے
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
میرے بچے دادی امی کہہ کر
جب تجھ سے لپٹ جاتے
اپنی دادی امی کا پیار پاجاتے
دادی امی کہاں ہیں
کیسی تھیں یہ نہ پوچھتے نہ پوچھ پاتے
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی Muhammad Anwer
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
دنیا سے ناراض ہوکر
یا پھر اللہ کی پیاری بن کر
ہم کو روتا چھوڑ کر
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
ہم تو چھوٹے تھے ماں
تیرے جگر گوشے تھے ماں
پھر ایسا کیا ہوا ماں
تو کیوں ہم کو چھوڑ گئی ماں
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
گر تو ہمارے درمیاں ہوتی ماں
ہم بھی خوش ہوتے ماں
دوستوں سے ذکر کرتے تیرا
تیری شفقت کا تیری محبت کا ماں
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
تیرے محبت بھرے خوف سے
تیرے ناراض ہونے کے ڈر سے
میں بھی دوستوں کی طرح
گھر لوٹ آتا ، تیرے ڈر سے
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی
میرے بچے دادی امی کہہ کر
جب تجھ سے لپٹ جاتے
اپنی دادی امی کا پیار پاجاتے
دادی امی کہاں ہیں
کیسی تھیں یہ نہ پوچھتے نہ پوچھ پاتے
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
وہ ہم کو چھوڑ کر کیوں چلی گئی Muhammad Anwer