✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Prof. Niamat Ali Murtazai
Search
Add Poetry
Poetries by Prof. Niamat Ali Murtazai
کافیہ
اللہ کولوں توبہ منگیئے، بندیاں کولوں مافی
گرمی، سردی، گُل، خزاواں، شُکر دا کلمہ کافی
دنیا دے ایس میلے اندر مُڑ کسے نہ اوناں
مَیل گناہواں والی دھووے، استغفار دی صافی
Prof. Niamat Ali Murtazai
Copy
چلے آؤ ، بہار آئی ، نہیں دیکھا زمانے سے
چلے آؤ ، بہار آئی ، نہیں دیکھا زمانے سے
پڑھو خود آ کے لکھے ہیں گلوں پے کچھ فسانے سے
کہا کرتے تھے تم :ـ’’دیکھو حسن کتنا ہے کلیوں میں‘‘
رخ تاباں کو دیکھا کرتے تھے ہم اس بہانے سے
نہیں اب خواب میں آتے جو گزرے پل حقیقت تھے
وہ راتیں جگمگاتی تھیں ، وہ دن بھی تھے سہانے سے
وہ جگنو تیری آنکھوں کے ، وہ برگِ گل لبوں کے بھی
شگوفہ سا بدن بربط ، وہ سانسوں کے ترانے سے
نظاروں کا دریچہ تھی تری زہرہ جبیں جاناں
گلِ عارض حسن کے تھے ہویدا کچھ خزانے سے
بہاروں نے دیئے تحفے ترا آنچل سجانے کو
تری زلفوں کی ٹھنڈک تھی گھٹا کا دل جلانے سے
بہاروں کی جوانی بھی ، ہو جھرنوں کی روانی بھی
تجھی کو ڈھونڈھتے ہیں شب کو تارے سب دیوانے سے
سبو میرے تخیل کا ، ہو پیمانہ سخن کا بھی
مجھے ہستی ملی ہے مٹ کے تیرے آستانے سے
ملی ہے تازگی روح کو ، قرارِ دل بھی حاصل ہے
مری نظروں کا زنگ اترا سرخ آنسو بہانے سے
نہ کعبے میں ، کلیسا میں، نا جا کے دیر و مندر میں
ملے ہے مرتضائیؔ کو خدا بت کو منانے سے
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
ڈھلتی ہے رات دن میں آ کر نبیؐ کے در پر
ڈھلتی ہے رات دن میں آ کر نبیؐ کے در پر
ہر اک مراد ملتی آ کر نبیؐ کے در پر
آنکھیں سوال بن کر سارا جہاں پھری ہیں
جھولی بھری ہے ان کی آ کر نبی ؐکے در پر
دنیا کے بادشاہ ہوں کہ فلک کے ہوں فرشتے
بنتی ہے بات سب کی آ کر نبیؐ کے در پر
آبِ حیات ان کے الفاظ میں بسا ہے
لاکھوں امر ہوئے ہیں آ کر نبیؐ کے در پر
ـ’مدت ہوئی نبیؐ جی بارش نہیں ہوئی ہیــ‘
فریاد اک صحابیؓ لایا نبیؐ کے در پر
’مدت ہوئی نبیؐ جی بارش نہیں تھمی ہے‘
فریاد پھر سنائی آ کر نبیؐ کے در پر
ہے نقشِ پا حرم میں نہ عرش پر ٹھکانہ
ملتا خدا ہے سب کو آ کر نبیؐ کے در پر
مقتل بنی ہے دنیا ، ارزاں ہے خونِ آدم
راحت ملے گی اس کو آ کر نبیؐ کے در پر
دنیا میں ڈھونڈتے ہو تم کس کو مرتضائیؔ
ہاں زندگی ملے گی جا کر نبیؐ کے در پر
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
ہم کو خدا ملا ہے آقاؐ تہارے در سے
ہم کو خدا ملا ہے آقاؐ تہارے در سے
پھیلی ضیا ہے ہر سو آقاؐ تہارے در سے
وہ اُستنِ حنانہ بھی بن گیا صحابیؓ
من کی مراد پائی اس نے تہارے در سے
اسلام کا فخر وہ ، کفار پر ہیں بھاری
فاروقؓ نے فاروقی پائی تہارے در سے
سید بنے ہیں حبشی راضی خدا ہوا ہے
عظمت بلال ؓ نے بھی پائی تہارے در سے
ہر چیز کی اصل میں تیرے حروف شامل
قدت ظہور میں ہے آئی تہارے در سے
حسنِ ازل ہویدا، کہنے کو مصطفائی
جام خدا ہے چھلکا آ کر تہارے در سے
چمکا نصیب اس کا ، جاگے ہیں بھاگ اس کے
جا کر حلیمہ ؓ لائی قسمت تہارے در سے
سب انبیاؑ نے مانا تمؐ کو امام اپنا
ان کو ملی نبوت شاہاؐ تہارے در سے
روزِ حشر کا میلہ رب نے ہے کیوں لگایا
سب کو ملے شفاعت شافعیؐ تہارے در سے
معراج کا فسانہ جس کی سمجھ میں آئے
وہی معراج پائے آکر تہارے در سے
تیری گدائی ہی میں مر جائے مرتضائیؔ
سب کچھ ملا ہے اس کو شاہاؐ تہارے در سے
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
بگڑی بنی جہاں کی لو آ گئے محمدؐ
بگڑی بنی جہاں کی لو آ گئے محمدؐ
اس ارض کو فلک سے ملوا گئے محمدؐ
عرشوں پے تھی منادی،ہر آنکھ منتظر تھی
جبریلؑ آ کے بولے، لو آگئے محمدؐ
سب انبیاؑ بھی آئے، تعظیم ان کی ایسی
لو آمنہ ؓ مبارک، لو آگئے محمدؐ
کسریٰ کو خواب آیا، ٹوٹے مینار اس کے
کاہن بتا رہے ہیں، لو آگئے محمدؐ
غلمان وحور مل کر نغمے خوشی کے گائیں
خوشبو پیام لائی لو آگئے محمدؐ
صادق امین آئے، احمدؐ شفیق آئے
مسئلہ حجر کا سلجھا ، لو آگئے محمدؐ
آہو ذرا سنبھلنا، ہو گی تری رہائی
آہٹ بتا رہی ہے لو آ گئے محمدؐ
جشنِ بہار ہو گا،جشنِ چراغاں ہو گا
جشنِ ضمیر ہو گا لو آ گئے محمدؐ
خوشیوں کی دھوپ اتری یثرب کی ہر گلی میں
تارے بچھے ہیں راہ میں لو آگئے محمدؐ
کعبے کے بت کدے میں اونچی اذان گونجی
ہر اک زبان پر تھا ، لو آ گئے محمدؐ
دل بن گیا ہے رشکِ فردوس اب ہمارا
دیکھو تو مرتضائیؔ لو آ گئے محمدؐ
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
نبیؐ قرآن پڑھتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، ستارے آ کے سنتے ہیں
یہاں قسمت سنورتی ہے، ذرے بھی چاند بنتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، ہوائیں آ کے سنتی ہیں
یہاں خوشبو بکھرتی ہے، گلوں میں خار ڈھلتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، پرندے آ کے سنتے ہیں
یہاں ملتی اماں بھی ہے ، قفس سے پر نکلتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، ملائک آ کے سنتے ہیں
انہیں ملتی حلاوت ہے، مدارج ان کے بڑھتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، خلائق آ کے سنتے ہیں
انہیں اکسیر ملتی ہے، پرانے زخم بھرتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، چمن بھی آ کے سنتے ہیں
انہیں ملتی ہے رنگینی ، خزاں کے سائے ڈھلتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، بتوں میں جان پڑتی ہے
ہوئے کنکر بھی گویا ہیں، شجر بھی راہ چلتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، تو جبرائیل سنتے ہیں
ہوئی دنیا آسودہ ہے،فلک بھی جھوم جاتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، تو بیت اﷲ بھی سنتا ہے
سنے زم زم بھی رک رک کر صفا مروہ بھی گاتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، بہاریں جھوم جاتی ہیں
ہوئے موسم سہانے ہیں، اندھیرے بھاگ جاتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، گھٹائیں برس جاتی ہیں
بریں جنت زمیں اترے، نظارے دل لبھاتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، بھریں لفظوں کے پیمانے
بھرے مستی حروفوں میں مصوتے دل جلاتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، ملے روحوں کو انگڑائی
دلِ مردہ بھی زندہ ہوں زمانے رک سے جاتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، خدا خود آ کے سنتا ہے
حروفِ جو مقطع کا خودی مطلب بتاتے ہیں
نبی ؐ قرآن پڑھتے ہیں، سنو تم مرتضائیؔ بھی
وہاں جا کر سنبھلتے ہیں یہاں جو گرتے جاتے ہیں
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
زَلت ذرا سی ہم کو ذ ِلت نشاں کرے ہے
زَلت ذرا سی ہم کو ذ ِلت نشاں کرے ہے
اک ـ ’ناــ‘ ہر اک سخی کو نا مہرباں کرے ہے
شوکِ شعور آیا اک شور بختی بن کر
جو شمع رو تصور کو ناتواں کرے ہے
اک زمزمہ خوشی کا ماتم میں ڈھل گیا ہے
مرجھائے گُل کا اکثر یہ دل گماں کرے ہے
چاروں طرف قفس کے ہے پہرہ خامشی کا
قتل و قتال جائز گر دل فغاں کرے ہے
بربط کے تار ٹوٹیں، دل کا رُباب پھوٹے
شہلا ئے ناز آخر کیسی فغاں کرے ہے
مقراض ِ روزو شب نے انسان کاٹ ڈالے
سوزن فکر کی پھر بھی یکجا جہاں کرے ہے
چرخِ کبود اپنے تارے سمیٹ لو تم
بکھراؤ یادِ ماضی دلِ غم نشاں کرے ہے
آتا ہے رونا اس پر، آتی ہنسی ہے اس پر
ہستی حباب اپنی شوقِ زماں کرے ہے
ادنیٰ سے آ دمی ہیں ، ہم کون سے کبیشر
یہاں کون بے نشاں کا واضح نشاں کرے ہے
صفتِ وحی کی حامل اک آہِ دل ہماری
یک دم جو اس جہاں کو بھی لا مکاں کرے ہے
صدیوں کی فکر چھوڑو ، لمحہ سنبھال لو تم
صدیوں کا سفر لمحہ اک رائیگاں کرے ہے
رک جاؤ مرتضائیؔ، اس کی مہار پکڑو
از حد خسارہ دل کا ،تیری لساں کرے ہے
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
وہ تارے بنے آسماں کے
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ زندہ ، پائندہ رہیں گے
ہمیشہ تابندہ رہیں گے
یہ ذرے جہاں سے کہیں گے
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
ہوا چھلنی سینہ تو کیا ہے
یہ عزمِ ایمانی بلا ہے
کہے خوں میں ڈوبی قبا ہے
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ گھر آج لوٹے نہیں ہیں
صحن آج سوتے نہیں
دیواریں یہ کہنے لگی ہیں
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
یہ بستے لو ماؤں سنبھالو
انہیں کو گلے سے لگا لو
فلک پے نگاہیں تو ڈالو
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ گھر لوٹ کے اب نہ آئیں
نہ آکے تمھیں کچھ بتائیں
مگر کہتی ہیں یہ ہوائیں
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
تصور ہی کافی ہے ان کا
بہشتوں میں بستر ہے ان کا
شہادت مقدر تھا ان کا
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
نہیں رائیگاں خون ان کا
نگارِ چمن خون ان کا
بہارِ وطن خون ان کا
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
صبا ان کی بہنوں سے کہدو
وہ سر پے تہارے ہیں کہدو
وہ رب کے پیارے ہیں کہدو
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
شہادت سے بہتر نہ نعمت
شہادت ہمیشہ سلامت
شہادت ہی جانِ شہادت
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ پَل سے زمانہ بنے ہیں
فخر کا فسانہ بنے ہیں
شہیدِ یگانہ بنے ہیں
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
انہیں مرتضائیؔ بلاؤ
وفا کا ترانہ سناؤ
چراغِ محبت جلاؤ
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
(سانحہ پشاور ۱۶دسمبر ۲۰۱۴ء کے ننھے شہیدوں کے نام)
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
مٹی ول کیہہ ویکھنا
مٹی ول کیہہ ویکھنا بیلی مٹی میل دی بھین
ویکھیئے نت یار دے ولے ملے سکون تے چین
یاری لائیے مولا دے نال ملے ودھیر ودھائی
یار دے باہجوں ککھ نئیں دنیا ہور نئیں گل کائی
سجناں دے بن دن نہ بیتن۔ نا ہی بیتن رین
پھلاں وچوں سولاں دسن، راگ سنیچن بین
سجن میرے دل دا جانی، سچا پیار ہے اس دا
رکھے ہر دم وچ پناہ دے، درشن دیوے مکھ دا
سجن آپے یاری لاوے ، آپے توڑ چڑھاوے
آپے سُٹے آتش دے وچ ، آپے آن بجھاوے
سجن دسے ہر شے وچوں، رکھ نظر دا پردہ
پردے اندر رہ کے سارے کم اوہ ظاہر کردا
پھلاں، کنڈے ، اتھرو، ہاسے ، سب کج انہدے ولوں
انہدے در توں منگن والے تھڑ دے نا ں کسے گلوں
رب دے اگے مرتضائیؔ عجز و عجزی ہوئیے
چنگے مندے عملاں پاروں اسدے اگے روئیے
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
تعلق اتنا گہرا تھا مرا بحرِ حوادث سے
تعلق اتنا گہرا تھا مرا بحرِ حوادث سے
رکا جس دم تھا دم پایا تھا ڈھانچہ اپنا ساحل پے
اٹھا کے سنگ دے ماروں سروں پر ایسی لہروں کے
گرا دیتی ہیں گھر میرا بناؤں روز ساحل پے
مکانی بحر تو خود ہی مقید پا بہ جولاں ہے
زمانی بحر سے جا کر ہے آیا کون ساحل پے
ہوا دھوکہ نظر میری کو واپس تیرے آنے کا
صبا کے تھے جو دیکھے تھے قدم الٹے سے ساحل پے
ہے پل دو پل کا میلہ سب یہ رنگ و نور کی محفل
کوئی آئے کوئی جائے ، رکا ہے کون ساحل پے
سفر میرا ، حضر تیرا، حضر میرا ، سفر تیرا
سرِ ساحل بحر میں ہوں، بحر میں ہوں تو ساحل پے
وہی ابھریں تصور میں، بحر کے آیئنے میں سب
نظر کے راستے اتریں، شبیہیں دل میں ساحل پے
چلو ہم مرتضائیؔ کو سنائیں اپنا افسانہ
کہ جگ بیتی تھی خود بیتی روایت وقت کے ساحل پے
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
یادیں پرانی لے کر آئی نئی ہے سردی
یادیں پرانی لے کر آئی نئی ہے سردی
اک نازلی، حسینہ بانکی ادا ہے سردی
ٹھنڈی ہوا سے دھکے زخمِ جگر پرانے
بہلے ہوئے غموں کو تڑپا گئی ہے سردی
منظر ہوئے سہانے، چاندی بھری ہوا ہے
چاندی کے گہنے شب کو سب دے گئی ہے سردی
اب دھوپ بھی ملے گی محبوب کی طرح سے
طرزِ عمل ہے نا کہ طرزِ فکر ہے سردی
لطف و کرم میں چائے ثانی نہیں ہے رکھتی
پی لو یا کہ پلاؤ ، اب چھا گئی ہے سردی
ہوں گے سبھی اکٹھے لنڈے کے نیچے جھنڈے
احساسِ آدمیت دکھلا گئی ہے سردی
منکی نٹوں سے ہو گا لطفِ دہن دوبالا
میوے طرح طرح کے لاتی بڑے ہے سردی
ہمدردی کے تقاضے کوئی ہمیں سکھائے
خود غرض اس فضا میں وحشی ہوئی ہے سردی
نزلہ ،زکام ،کھانسی سب اس کی ہیں عطائیں
رکھو خیال اپنا،گردن پکڑ ہے سردی
پنچھی، پکھیرو کتنے اس نے ہیں مار دینے
جلاد ہے پوشیدہ، گوری مگر ہے سردی
سردی کرے حکومت، دل اس کی راج دھانی
بچ جاؤ مرتضائیؔ ، ظالم بڑی ہے سردی
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
مالک دے دربار
کھاویں پیویں چنگا چوسا، پہنیں ہار سنگھار
ون سونی چیزاں دا توں کردا پھریں بیوپار
ہر دن تیرا لنگدا اے جیویں لنگدا اے تیو ہار
یاد رہیا نہ تینوں جا نا مالک دے دربار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
اکھ تری وچ لالچ آئی، دل وچ بے سکونی
چھوٹی گل نوں وڈی جانیں، وڈی نوں نیونی
جنت دا شہزادہ لے گئی دنیا دی چمونی
مار پتھلا قابض ہوئی، کیہہ اندر کیہہ بار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
جگ اوس دی کرنسی کیسے توں کدی ناں پائی
چہگابھریا مٹی دے نال، مٹی تری کمائی
دولت دل دی مالک دتی، وچ بازار گوائی
اک دن تینوں جانا پینا چھڈ تے سب سنسار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
میل کچیل توں کھائی جاویں، پہن کے ستھرے کپڑے
ریشم، مخمل پہنن والے ویکھ کتھے جا اپڑے
نفس نے اُنس نوں مار مکایا ، کر کے سٹیا ڈکرے
ھاواں وچ ہوا دے اندر بدلاں دے پکار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
مالک تینوں پیدا کیتادے کے نور شعور
اپنے نفس دے ہتھوں آپے ہو گییوں مجبور
شیشہ رب دے ویکھن والا کیتا چکنا چور
مالک باہجوں بندیا تیرا سب کج ہے بے کار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
آدمؑ ، حواؑ دے جائے ویکھو رات دنے پے لڑدے
جنت دے گلاب نے جا کے دوزخ وچ پئے سڑدے
موڑ موڑ کے واعظ تھکے پر ایہہ نییؤں مڑ دے
نفرت والی دل دے وچو ں ڈھا دیوو دیوار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
دنیا دے سرائے اندر بندیا توں پروہنا
پکیاں اِٹاں، پکیاں کنداں تیرا منہ چڑوھنا
جوگی والا پھیرا ایتھے ، مڑ کسے نیئں اونا
ایہناں تھاواں نال ہے تیرا حدوں ودھ پیار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
مالک دے دربار دے بندیا سکھ لے کج آداب
دولت ، دنیا دی محبت، دلدل تے گرداب
لبھ لے دل دی دولت جیہڑی دولت ہے نایاب
خدمت خلقت رب دی ہووے تیرا کاروبار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
چھڈ دو رنگی توں تے آ جا یک رنگی دے اندر
ایہو تینوں سبق سکھاون چرچ، مسیت تے مندر
باہروں جیسا دسیں بندیا ویسا ہوویں اندر
اک چہرے دے پچھے لکے چہرے بے شمار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
نفس ، شیطان نے بیلی تیرے ، دنیا تیری حور
کھوتے، گھوڑے اک برابر ، پُٹھے نیں دستور
صدیاں دی سولی تے ٹنگے بندے بے قصور
ظلم ستم ، تے جبر قہر دی ہر پاسے للکار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
دنیا دی ایس کھیڈ نوں بندیا توں حقیقت منیا
دنیا دے کماں وچ ایویں توں گیاں ایں ونیا
خواہش دے کباب نوں ناں وچ تیل طریقت رنیا
توں نکتہ ایں مرکز والا دنیا اے پرکار
مالک دے دربار جانا ، مالک دے دربار
بخشیں سانوں رب سوہنے تے کج نئیں ساڈے پلے
باہجوں حضرت سرور عالم ؐ گولے اسیں نگلے
صدقہ نیکاں روحاں د ا تے ٹوریں جنت ولے
مرتضائیؔ تے وی ہووے نظرِ کرم ہر وار
مالک دے د ربار جانا ، مالک دے دربار
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
تیری خدائی ہم کو یوں راس آگئی ہے
تیری خدائی ہم کو یوں راس آگئی ہے
عظمت کی باس تیری ہر سو سما گئی ہے
سورج میں تیرا جلوہ، بجلی غضب ہے تیرا
آتش فشاں میں تیری قوت سما گئی ہے
کب زلزلے تھمے ہیں، طوفان کب رکے ہیں
تیری ہی یاد ہے جو سب غم بھلا گئی ہے
ماتم کدہ جہاں میں اشکوں کی ہر جا بارش
لیتے ہی نام تیرا، اُ مید آ گئی ہے
تیری رضا ہے جنت، ناراضگی جہنم
اُمید وبیم میں ہی دنیا سما گئی ہے
کِھلنا تری ادا ہے، مرجھانا بھی قضا ہے
تیری ثنا تری ہر تخلیق گا گئی ہے
بحرو فلک تری ہی عظمت کے ہیں نشاں سب
ارض وسما میں تیری قدرت ہی چھا گئی ہے
ہر ذرہ ہے گواہی تیری موجودگی کی
آئی سکون بن کر جب بھی فغاں گئی ہے
شمع میں نورتیرا ، پروانے کی تڑپ بھی
ہستی ہر ایک تجھ میں مالک سما گئی ہے
پیوستہ ہے تجھی سے ہر آسِ مرتضائیؔ
تیری طرف ہی دل سے ہر اک دعا گئی ہے
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
سرورؐ زمانے کے وہ، احمدؐہے نام اُن کا
سرورؐ زمانے کے وہ، احمدؐہے نام اُن کا
رحمتؐ ہیں وہ مجسم ، بخشش ہے کام ان کا
وہ ساقئیؐ حشر ہیں، سب ان کے ہیں دیوانے
ان کی نگاہیں کوثر، تسنیم جام ان کا
عرشِ معلیٰ نیچے ان کے قدم کے آیا
اس تک فکر نہ پہنچے، اونچا مقام ان کا
وہ پیکرِ کلامِ ربِ کریم ہیں جو
رب نے کہا ہے میرا ، ہر اک کلام ان کا
محبوبؐ وہ خدا کے ، ہر جا ہے ان کی شاہی
رب کی صلوۃ ان پر، ہر اک سلام ان کا
کوئی نہ جان پائے ان کی رسائی کتنی
سلطانِ بحر و بر ہے جو ہے غلام ان کا
ان کی نظر مسیحا، زخمی دلوں کا مرہم
منشورِ آدمیت ہر اک پیام ان کا
بن جاؤ مرتضائیؔ ان کی گلی کے منگتے
ہاں! خیر بھی ملے گی، ہو گا قیام ان کا
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
رب دی یاد
بیلی بنیئے مولا دے تاں مول نہ رہندا رنج
روز ولیمے کھائیے رج کے راتیں چڑھیئے جنج
رب دی یاد دا رس بناوے کانا، گنا پونا
جیہڑا چڑھدا عشق دی بھٹی لوہیا بندا سونا
رب دی یاد دی دولت ساری دنیا نالوں وڈی
جہندے دل وچ ایہہ سماوے ویکھے ول نہ ہڈی
رب دی یاد دے دریا اندر جے کر روح نہاوے
میل کچیل نہ دنیا والی اس دے ولے آوے
رب دی یاد حصار بنا کے جے کرے رکھوالی
کوئی ناں چلے بندے اتے چال شیطاناں والی
رب دی یاد ہے ایویں جیویں وچ بہشتاں رہناں
فکراں، رنجاں مول ناں اوناں، وچ سکون دے بہناں
رب دی یاد دا سرمہ جے کر اکھیاں نوں مل جاوے
چوداں طبق اوہ مالک آپے بندے نوں وکھاوے
رب دی یاد چ جیہڑا جیوے ، موت وصال دی پاوے
پل صراتاں اتوں وانگوں بجلی لنگدا جاوے
رب دی یاد دا دیوا جے کر دل دے وچ بل جاوے
صدیاں تیکر چھاون والا نس ہنیرا جاوے
رب دی یاد دے نال پرندے وچ اسماناں اڈھ دے
نالے جھومن نال خوشی دے رکھ دوالے مڈھ دے
رب دی یاد ہے مرتضائیؔ سب توں وڈی دولت
انہدے اگے ہیچ حکومت، دولت نالے شہرت
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
سن نی دھی رانی
سن لے دھیئے رانیئے نی ،تینوں میں سمجھاواں
کر لے مت سیانی کڑیئے ،تیرے ترلے پاواں
ماواں ورگی شے نہ کوئی ، ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
لگے چوٹ جے دھی پتر نوں، ماواں بھردیاں ہا واں
دنیا دھیئے بڑی سیانی، کوئی ناں کھان نوں دیوے
بتی، تیل دے باہجوں چانن دیون ناہیں دیوے
اوہو رہندا چنگا جہڑا اپنے آپ چ جیوے
کھا کے سکی، مسی روٹی ٹھنڈا پانی پیوے
چنگا لگے او ہو بندا جہڑ ا دے قربانی
کمی اپنے تائیں سمجھیں، سمجھیں ناہیں رانی
منیں کہنا ویلے دا نی کرنی نئیں من مانی
مالک اپنے نوں توں جانیں جیویں دل دا جانی
گلے دے گانی نال ای کڑیئے اپنا من پر چاویں
سن میوزک کاراں دے ناں اپنا دل ترساویں
یا پھر جھانجھر پیراں والی جے کدی اوہ پاوے
نس دی جاویں سڑکاں اتے، نچ نچ تو وکھاویں
چنگی مندی گل ،پیاری ،جے کدی اوہ آکھے
بہتے سوٹے کھان توں پہلاں، کاکی لگیں آکھے
اوکڑ سوکڑ ،آ، او، جاندی، دن بدلدے رہندے
تیرے اگے ککھ اوہ رکھے، آکھیں توں ایہہ لکھ اے
نال خوشی دے کھاویں دھیئے جنے رُ گ اوہ پاوے
جھٹ دے نال تیار ہویں جد ریہڑی لے کے آوے
سجے، کھبے ، اگے، پچھے ویکھیں چار چو فیرے
رکھیں وچ دھیان جدوں وی واگ اشارہ آوے
ماڑا ایتھے مر مر مردا ، کوئی ناں اوہنوں پچھے
بندے ایتھے تھوڑے نیں تے بہتے رہندے لچے
گھگھیاں اندر باز چھپے نیں ، ہرناں اندر چیتے
سدھی سادھی دنیا کوئی ناں ،بہتی لچ کڑچ اے
چنگا ، مندا ، ویکھ کے کڑیئے توں دولتی ماریں
چک چک بہتا بھار نی جٹی دل مالک دا ٹھاریں
رکھیں اٹھے پہر تیاری، ہاڑیں تے سیالیں
چادر سستی والی توں ناں اپنے سر تے اوڑھیں
ویکھ ویکھ کے میرے ولے، سکھ لے ول ولاویں
کیویں سدھی راہ تے چلنا، مڑنا داویں ، باویں
جے کر آوے ول ہنر، تے توں مراداں پاویں
دوڑی جاویں سڑکاں اتے گھاٹیاں چڑ دی جاویں
راضی ہو کے مالک تیرا ، تھاپڑی چہ اک لاوے
کنے ماہاں سالاں دی ،تے، لتھ تھکاوٹ جاوے
پکی ہو کے توں کھلوویں جد اوہ مال لدا وے
اڈھ دی آویں وانگ ہوا ،جد گھردے ول اوآوے
اوہو عقل سیانی جہڑی ہوراں کولوں سکھے
کم او رہنے ہو کے جہڑے لیکھاں وچ نے لکھے
کسے نے ڈگنا پک پکا کے، کسے نے کچے پلے
سداتے شاہی رب سوہنے دی، انہدے چلنے سکے
اکو تھاں تے آکے مکدی گل جہڑی وی کریئے
اکو گھاٹی تے اوچڑھ دی جہڑی راہ وی ٹریئے
باقی رہنا باقی نے ، بس مرتضائی ؔ ڈریئے
سارے رب دے جی نیں بیلی، سبق محبت پڑھیئے
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
یہ انکساری دل کی تریاق ہے انا کی
یہ انکساری دل کی تریاق ہے انا کی
ہر بار ہار دل کی اک جیت ہے وفا کی
گو بجلیاں بھری ہیں اپنی سرشت میں بھی
پر خامشی ہماری تقریر ہے بلا کی
فانوس میں سفل کے نورِ ازل ودیعت
تیرہ شبی ہے پھر بھی چاروں طرف قبا کی
لہروں میں ہے تلاطم،قلزم بھی ہے پریشاں
منت پذیر دونوں ناؤ بھی ، نا خدا بھی
سرخی سحر، شفق کی اتری ہے ہر نظر میں
قاتل نگاہی پھیلی نگری میں انبیاءؑ کی
اس پالکی بدن میں سیرِ چمن کو آئی
بانو بہشت کی میں خواہش یہ کس طرح کی
رشتے لباس جیسے ، محتاج موسموں کے
یہ دوستی، محبت سب رنگتیں عبا کی
بوتل شراب کی ہو جب ہاتھ میں کسی کے
ڈولے ایمان جیسے پائل ہو سبک پا کی
ہر پل ہے ساتھ دل کے خود دل سے دل کی دوری
مانگا وصل کسی کا، تاثیر اس دعا کی
ہم نے وفا کی جھولی بھر دی ہے گوہروں سے
آنکھیں ہماری کانیں، عادت بھی ہے سخا کی
گم گشتہء جہاں ہیں، نذرِ نظر رہے ہیں
انداز آسماں کا، تقدیر کی سفاکی
اس کوچہء صنم میں سب نے فَنا ہی پائی
دو داد مرتضائیؔ الفت کی اس ادا کی
Prof. Niamat Ali Murtazai
Copy
ترحم یا رسول اﷲ ﷺ ترحم
خجالت میں گری امت تہاری
اٹھی چاروں طرف سے بے قراری
چھپے کعبے میں دشمن دینِ باری
ہوئی اسلام کی ہر سو ہے خواری
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ستاروں سے ہے خالی آسماں اب
شبِ دیجور چھائی ہے گھٹا اب
لٹی ایمان کی جائے قبا اب
بھرا کانٹوں سے ہے دامن صبا اب
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
دیارِ امن کھنڈر ہی فغاں کے
بچھی لاشیں جنازے بن دعا کے
نہیں چادر سروں پر اب حیا کے
عزازیلی بنے بندے خدا کے
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
بڑی چالیں عدو ظالم بچھائیں
درو دیوار اسلامی کو ڈھائیں
لبِ گُل پے ہیں مرنے کی دعائیں
ملیں نا کردہ جرموں کی سزائیں
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
کیا اسلام سے ہم نے کنارہ
کوئی پرسانِ غم نہ ہے ہمارا
میسر سائے کا بھی نہ سہارا
خس و خاشاک ہیں ہر سو خسارہ
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
نہیں قرآن سے کوئی علاقہ
گرے دلدل خودی میں ہم سراپا
اخوت کا نہیں احساس باقی
رہا مسلم حرم کا نہ حرا کا
ترحم یا رسول اﷲﷺ ترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
کہاں جائے دلِ بے تاب اپنا
کبھی تھا ماہِ افلاکی بھی اپنا
نہیں کوئی کہیں جائے پناہ اب
کبھی لگتا جہاں سارا تھا اپنا
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
کوئی آئے تری امت کا حامی
تڑپ جس میں ہو مثلِ شیخِ جامیؒ
کوئی عجمی یا عربوں کا مقامی
کٹے جلدی ہماری یہ غلامی
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
فقط تیری محبت کا سہارا
اسی پر ہے فقیروں کا گزارا
نہیں جاتا کوئی دیکھا نظارہ
دلِ برباد نے تجھ کو پکارا
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
کہاں جائیں سگِ دربار تیرے
جو تیرے ہو چکے ہر دم ہیں تیرے
سراپا عبث دشمن کے ہیں گھیرے
ترے در سے اٹھیں پھر سویرے
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
تو قاسم ہے خدا کی ہر عطا کا
تو عاصم ہے ہماری ہر خطا کا
تو پیکر ہے کرم کا اور سخا کا
تو حامل ہے حمد کے اس لِوا کا
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
غریبوں کی گذارش شاہِ عالمﷺ
کرو نظرِ کرم اے شاہِ عالمﷺ
بجز تیرے نہیں درمانِ عالمﷺ
ترا دربار عالی شاہِ عالمﷺ
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
ترحم یا رسول اﷲ ﷺترحم
Prof. Niamat Ali Murtazai
Copy
محبت
محبت بنائے محل تاج جیسے
محبت میں گذرے ہیں کل آج جیسے
محبت ہی امبر ،محبت ہی دھرتی
محبت سے شبنم گلوں پر ہے گرتی
محبت حرم ہے، محبت دھرم ہے
محبت کی ہر سو ہی نظرِ کرم ہے
محبت وصل ہے، محبت جدائی
کبھی راز دل کا، کبھی یہ دھائی
محبت ہی آنسو، محبت تبسم
کبھی جانِ ہستی، کبھی یہ نرا سم
محبت بہاروں کی روحِ رواں ہے
کبھی یہ پپیہے کی آہ وفغاں ہے
محبت قصیدہ، محبت غزل ہے
کبھی نوحہ غم کا ، کبھی یہ ہزل ہے
محبت ہی قہقہہ، ہی آہیں
گل و خار رکھیں محبت کی راہیں
محبت پرندے کی چونچ کا دنکا
محبت شجر پر رہائش کا تنکا
محبت خدا ہے، محبت خدائی
محبت نہیں تو نہیں مرتضائیؔ
Prof Niamat Ali Murtazai
Copy
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
محمدﷺ کے صدقے یہ دنیا بنی
بچھا یہ فرش نیلی چادر تنی
محمدﷺ بنے نسلِ آدم بنی
ملائک بنے، حورِ جنت بنی
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
صدارت خدا کی خصوصی وہ مہماں
لیا انبیاءؑ سے تھا جب عہد و پیماں
ازل کا سماں تھا ابد سے ملا
یہ تھا انﷺ کی عظمت کا پہلا اعلاں
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
خطا کی معافی ہوئی تھی بشر کو
کہ اسمِ محمدﷺ ملا تھا نظر کو
حزیں تھے زمانے سے آدمؑ حواؑ
ملی تازگی ایک اجڑی فکر کو
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
سفینے کو نوحؑ کے ملی تھی اماں
وسیلے سے انﷺ کے اٹھی تھی فغاں
انوکھا زمانے سے یہ سیل تھا
مٹائے تھے سب جس نے پہلے نشاں
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
ہوئی نارِ نمرود گلشن نشاں
بڑا قابلِ دید تھا وہ سماں
وہﷺ رحمت خدا کی بعید از گماں
وہﷺ یکتا مگر ہیں خصائل ہمہ
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
چھری کو حکم تھا کہ بیکا نہ ہو
کوئی بال بھی اس کے نیچے جو ہو
رہائی ملی یوں ذبیحہ اﷲ کو
جی انؑ کے خلف میں وہﷺ آنے تھے جو
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
کہا ابنِ مریمؑ نے آئیں گے وہ
پیامِ خدا بھی سنائیں گے وہ
بشر کو خدا سے ملائیں گے وہ
جہنم کی آتش بجھائیں گے وہ
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
اخیؑ اک ستارے کو دیکھا کرے
جو نکلا کرے تھا عرش سے پرے
اٹھائی جو دستار سرور بڑےﷺ
وہ بولے ستارہ یہی ہے ارے
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
غلاموں کے نام انﷺ کے مذکور تھے
وفا اور ایفا میں مشہور تھے
چراغ ہدایت شبِ کور تھے
رسالت کی مئے سے وہ مسحور تھے
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
جو جنگل پڑاؤ تھا کرنا پڑا
کہا اک صحابیؓ نے ہو کر کھڑا
غلامانِ احمدﷺ یہاں ہیں رکے
یہ سن کر پرے ہر تھا وحشی مڑا
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
نہ بارش ہوئی ایک عرصے تلک
کہ سوکھا پڑا تھا زمیں کا حلق
دعائے نبیﷺ سے اٹھی تھی گھٹا
اشارے سے انﷺ کے گیا یہ کلک
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
اشارہ قمر کو بھی شق کر گیا
یوں چہرہ کفر کا وہ فک کر گیا
ہاں تابع ہیں انﷺ کے یہ شمس و قمر
وہ حق کا نبی ﷺ حق کو حق کر گیا
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
تھی ایڑی صدیقیؓ ڈسی مار نے
پناہ جس کو صدیوں سے دی غار نے
جو آنکھوں سے آنسو اچھلنے لگے
لگایا لعابِ دھن یارﷺ نے
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
نمازِ علیؓ بھی چلی تھی ابھی
ہوئی نہ قضا تھی صلوۃ کبھی
اشارے سے سورج بھی واپس ہوا
نبیﷺ کو مہر بھی تھا سمجھا نبیﷺ
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
کہا جبرائیلؑ نے حد ہے مری
یہ سدرہ ہی آخری سد ہے مری
نہیں اس سے آگے مرے بس کا کام
زمیں سے یہاں تک مد ہے مری
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
وصل قاب قوسین ان کو ملا
محبت نہیں تو یہ کیا ہے بھلا
وہی جانتے ہیں یا جانے خدا
مقامِ محمدﷺ کا کس کو پتہ
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
کہا ادن منی خدا نے جہاں
وہ محبوبِ عالمﷺ تھے پہنچے وہاں
نہ عالم تھا کوئی نہ جہتیں وہاں
سمجھ میں نہ آئے وہ تھا لا مکاں
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
جو پردے لگائے تھے ستر ہزار
انوکھی ادا تھی ، انوکھا پیار
کوئی جانتا ہے ، کسے ہے خبر
کہ دلدار کا دل تھا کتنا فگار
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
کہا تھا زبانِ صدیقیؓ نے فوراً
چلے آئے تھے لے کے شکوہ دفعتاً
وہ عرشوں سے ہو کر بھی آئے ہیں لیلاً
ــ’’اگر وہ ہیں کہتے تو برحق ہے قسما‘‘ً
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
براق ان کی الفت میں رویا کرے
وہ اشکوں سے دامن بھگویا کرے
محبت میں رونا ہی کام آگیا
محبوں میں انﷺ کے جو نام آگیا
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
وہ محمودﷺ روزِ قیامت بنے
تمامی خلق کی اعانت بنے
نہیں ثانی انﷺ کا حشر میں کوئی
گنہگاروں کی بھی شفاعت بنے
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
پروفٹ ہے نام ان کا اب بھی وہاں
غرب کے علاقے جہاں میں جہاں
کہ بالائے شک وہ نبیء الزماں
نبوت کے ہر سو ملے ہیں نشاں
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا پے چھائے گئے
غلامی ملی مرتضائیؔ کو انﷺ کی
بہشتیں بھی چھانیں خاکِ راہ جن کی
مقدر پے نازاں ہیں سگ ان کے در کے
بہار آفریں ہے فضا جن کے من کی
یوں میلاد انﷺ کے منائے گئے
وہ آئے تو دنیا بسائے گئے
Prof. Niamat Ali Murtazai
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets