Poetries by Rahat Jabeen
سودوزیاں کا حساب کر لیں چلو پھر سے اپنےسودو زیاں کا کر حساب کر لیں
جو لمحے تیری یاد میں گزرے ان کو بھی شمار کرلیں
سودوزیاں کے ان لمحوں میں
کیا تھے اپنے دن رات سوچیں
کیا تھیں اپنی اوقات سوچیں
کیا کچھ ہم نے لٹا دیا ہے
کیا کچھ ہم کو ملا یہاں ہے
چلو پھر سے یہ بات سوچیں
کہاں پہ ہم نے پائیں محبتیں
کھاں پہ ملیں ہم کو عنایتیں
ان عنایتوں اور محبتوں میں
کہیں پہ تھیں کچھ حسرتیں
جہاں پہ تھیں یہ حسرتیں
ان ساعتوں کو بھی شمار کر لیں
کسے ہم سے گلہ تھا یہ سوچیں
کسے ہم سے تھیں شکایتیں
کہیں پہ تھیں کچھ رقابتیں
رقابتوں میں شکایتوں میں
عیاں تھیں ایسی وضاحتیں
جنہیں نہ تم کبھی سمجھ پاۓ
جنہیں نہ ہم بیان کر پاۓ
چلو کہ اب پہ بھی لمحات سوچیں
تجھے پتا ہے مجھے خبر ہے
نہ اب وہ دن رات ہیں اپنے
نہ محنتیں ہیں نہ عنایتیں ہیں
نہ شکایتیں ہیں نہ وضاحتیں ہیں
بس کہیں کہیں پہ کچھ حسرتیں ہیں
انہی حسرتوں کے درمیان
غم دوراں کی ہیں صعوبتیں
چلو ان صعوبتوں کو بھی شمار کرلیں Rahat jabeen
جو لمحے تیری یاد میں گزرے ان کو بھی شمار کرلیں
سودوزیاں کے ان لمحوں میں
کیا تھے اپنے دن رات سوچیں
کیا تھیں اپنی اوقات سوچیں
کیا کچھ ہم نے لٹا دیا ہے
کیا کچھ ہم کو ملا یہاں ہے
چلو پھر سے یہ بات سوچیں
کہاں پہ ہم نے پائیں محبتیں
کھاں پہ ملیں ہم کو عنایتیں
ان عنایتوں اور محبتوں میں
کہیں پہ تھیں کچھ حسرتیں
جہاں پہ تھیں یہ حسرتیں
ان ساعتوں کو بھی شمار کر لیں
کسے ہم سے گلہ تھا یہ سوچیں
کسے ہم سے تھیں شکایتیں
کہیں پہ تھیں کچھ رقابتیں
رقابتوں میں شکایتوں میں
عیاں تھیں ایسی وضاحتیں
جنہیں نہ تم کبھی سمجھ پاۓ
جنہیں نہ ہم بیان کر پاۓ
چلو کہ اب پہ بھی لمحات سوچیں
تجھے پتا ہے مجھے خبر ہے
نہ اب وہ دن رات ہیں اپنے
نہ محنتیں ہیں نہ عنایتیں ہیں
نہ شکایتیں ہیں نہ وضاحتیں ہیں
بس کہیں کہیں پہ کچھ حسرتیں ہیں
انہی حسرتوں کے درمیان
غم دوراں کی ہیں صعوبتیں
چلو ان صعوبتوں کو بھی شمار کرلیں Rahat jabeen
اے ماں اے ماں
تیری یادوں کا سہارہ ہی
مجھے ہر شے سے پیارا ہے
تیرا وہ پیار برسانا، مجھے اب یاد آتا ہے
میرے سر کو سہلانا ، مجھے ہر دم رلاتا ہے
مجھے بانہوں میں بھر لینا
میری آنکھوں کو بگھو تا ہے
میں یہ کیسے بتاؤں کہ
مجھے اب تک نہیں بھولا
تیرے جانے کا وہ ایک پل
مجھے اب تک نہیں بھولا
تیرے سنگ گزرا ہر پل
محبت سے بھی تھا سرشار
مداوا بھی دکھوں کا تھا
تیرے جانے کے بعد اکثر
انہی یادوں کے گوشوں میں
میں یہ سوچتی ہوں اب
تجھے یاد کر کرکے
میں راتوں کو نہیں سوتی
مگر اے پیاری امی جان
کیا تو بھی مجھے یاد کرتی ہے؟
کیااب بھی
تمہیں میرا بچپن یاد آتا ہے؟
میرے دل میں چھپے آنسو ، جو تو بھانپ لیتی تھی
کیا اب بھی
انہیں تو دیکھ پاتی ہے؟
میرے دل کے ارمانوں کو
جو تو اک پل میں پہچان لیتی تھی
کیا اب بھی
تمہیں وہ محسوس ہوتے ہیں ؟
میرے دل کی خواہشوں کو جو تو پورا کرتی تھی
کیا اب بھی
انہیں تونیا روپ دے سکتی ہے ؟
کیا اب بھی
تمہاری دعاؤں کے آنچل میں ، میں سموئی ہوں ؟
اے ماں، بتا مجھ کو؟؟؟ rahat jabeen
تیری یادوں کا سہارہ ہی
مجھے ہر شے سے پیارا ہے
تیرا وہ پیار برسانا، مجھے اب یاد آتا ہے
میرے سر کو سہلانا ، مجھے ہر دم رلاتا ہے
مجھے بانہوں میں بھر لینا
میری آنکھوں کو بگھو تا ہے
میں یہ کیسے بتاؤں کہ
مجھے اب تک نہیں بھولا
تیرے جانے کا وہ ایک پل
مجھے اب تک نہیں بھولا
تیرے سنگ گزرا ہر پل
محبت سے بھی تھا سرشار
مداوا بھی دکھوں کا تھا
تیرے جانے کے بعد اکثر
انہی یادوں کے گوشوں میں
میں یہ سوچتی ہوں اب
تجھے یاد کر کرکے
میں راتوں کو نہیں سوتی
مگر اے پیاری امی جان
کیا تو بھی مجھے یاد کرتی ہے؟
کیااب بھی
تمہیں میرا بچپن یاد آتا ہے؟
میرے دل میں چھپے آنسو ، جو تو بھانپ لیتی تھی
کیا اب بھی
انہیں تو دیکھ پاتی ہے؟
میرے دل کے ارمانوں کو
جو تو اک پل میں پہچان لیتی تھی
کیا اب بھی
تمہیں وہ محسوس ہوتے ہیں ؟
میرے دل کی خواہشوں کو جو تو پورا کرتی تھی
کیا اب بھی
انہیں تونیا روپ دے سکتی ہے ؟
کیا اب بھی
تمہاری دعاؤں کے آنچل میں ، میں سموئی ہوں ؟
اے ماں، بتا مجھ کو؟؟؟ rahat jabeen
دل کی بستی دل میں ایک بستی ہے
اور اس بستی میں
اجنبی سرائے ہیں
اجنبی فضاہیں ہیں
اجنبی فضاؤں میں
شور ہے کبھی بھرپا
اور کبھی سناٹے ہیں
اور اس بستی میں
بے نشان مکانیں ہیں
روح کے مکانوں میں
اجنبی دیواریں ہیں
جن میں لوگ بستے ہیں
اجنبی ہی لگتے ہیں
بیچ ان مکانوں کے
دل میں چند گلیاں ہیں
اور ان گلیوں میں
اجنبی سے سائے ہیں
اور اجنبی مسافر ہیں
ایک بار ملتے ہیں
پھر وہ کھو جاتے ہیں
بے نشان گلیوں میں
عمر بھر کے لئے
پھر نہیں وہ مل پاتے Dr Rahat Jabeen
اور اس بستی میں
اجنبی سرائے ہیں
اجنبی فضاہیں ہیں
اجنبی فضاؤں میں
شور ہے کبھی بھرپا
اور کبھی سناٹے ہیں
اور اس بستی میں
بے نشان مکانیں ہیں
روح کے مکانوں میں
اجنبی دیواریں ہیں
جن میں لوگ بستے ہیں
اجنبی ہی لگتے ہیں
بیچ ان مکانوں کے
دل میں چند گلیاں ہیں
اور ان گلیوں میں
اجنبی سے سائے ہیں
اور اجنبی مسافر ہیں
ایک بار ملتے ہیں
پھر وہ کھو جاتے ہیں
بے نشان گلیوں میں
عمر بھر کے لئے
پھر نہیں وہ مل پاتے Dr Rahat Jabeen
تو جو روٹھ گئی زندگانی سے کتنی یادیں تیری باتوں سے ہوئیں وابسطہ
تو جو روٹھ گئ زندگانی سے
بے سبب ہی لگا یہ الزام ہم پر
تیری اک بے وجہ کی بدگمانی سے
کیا ہمیں دیا اور کیا ہم سے چھینا ہے
نہ کیجئے گلہ کچھ اس جہان فانی سے
اپنا ہی نہ ہو سکا وہ وگر نہ ہم
جیت ہی جاتے یہ بازی آسانی سے
لا حا صل انتظار میں گزری تمام عمر
اب رہ رہے ہیں ہم یہاں بے سرو سامانی سے
ناحق ہی ہم سے ہو گئے ہیں وہ خفاخفا
دیکھا نہ جب ہم نے انہیں بے دھانی سے
بھولنا چاہوں بھی تو بھول نہ پاؤں اسے
یادیں ہیں کہ امڈتی ہیں یوں فراوانی سے
گردش ایام کو روک نہ پائے کبھی بھی ہم
وقت یوں ہی گزرتا رہا روانی سے
گر ہو سکے تو دشت میں گھر کیجئے ندا
بہتر ہی ہے اس لا دیدہ نامکانی سے Rahat jabeen
تو جو روٹھ گئ زندگانی سے
بے سبب ہی لگا یہ الزام ہم پر
تیری اک بے وجہ کی بدگمانی سے
کیا ہمیں دیا اور کیا ہم سے چھینا ہے
نہ کیجئے گلہ کچھ اس جہان فانی سے
اپنا ہی نہ ہو سکا وہ وگر نہ ہم
جیت ہی جاتے یہ بازی آسانی سے
لا حا صل انتظار میں گزری تمام عمر
اب رہ رہے ہیں ہم یہاں بے سرو سامانی سے
ناحق ہی ہم سے ہو گئے ہیں وہ خفاخفا
دیکھا نہ جب ہم نے انہیں بے دھانی سے
بھولنا چاہوں بھی تو بھول نہ پاؤں اسے
یادیں ہیں کہ امڈتی ہیں یوں فراوانی سے
گردش ایام کو روک نہ پائے کبھی بھی ہم
وقت یوں ہی گزرتا رہا روانی سے
گر ہو سکے تو دشت میں گھر کیجئے ندا
بہتر ہی ہے اس لا دیدہ نامکانی سے Rahat jabeen
دسمبر کی ا یک شام اپنی امی کے نام اس سال بھی ماہ دسمبر میں
نصاب زندگی کو جو کھول کر دیکھا
تو ماضی کے جھروکوں میں
بہت چہرے ابھر کر
نظر میں آن ٹہرے ہیں
جن پہ وقت کی گردش نے
برسہا برس کی دھول ڈھالی تھی
ذہن کے کسی کونے میں
یادوں کے کئی سلسلے چل نکلے
جن پہ گردش ایام اور غم دوراں نے پردہ ڈال رکھا تھا
بہت یادیں بہت باتیں اور کئی چہرے
دکھوں کے ساتھ تھی وابسطہ
بہت یادیں بہت باتیں اور کئی چہرے
خوشی کے دنوں کی ہیں سوغاتیں
انہی یادوں اور چہروں کے تسلسل میں
کہیں کچھ دوست تھے اپنے
کہیں کچھ چاہنے والے
اور بہت سے
رہگزر زندگی کے مختصر لمحوں کے ساتھی تھے
مگر ان سب میں
نمایاں ایک چہرہ ہے
جو سب یادوں سے گہرا ہے
تصور میں ہمارے
کئی برسوں سے آن ٹھرا ہے
جو اب کے برس بھی نہ دھندلایا ہے
نہ اس پہ وقت کی کوئی دھول جمی ہے
نہ اس پہ گردش دوراں کا سایہ ہے
خوشی کے چند لمحوں کا
حسیں وہ سرمایہ ہے Rahar Jabeen
نصاب زندگی کو جو کھول کر دیکھا
تو ماضی کے جھروکوں میں
بہت چہرے ابھر کر
نظر میں آن ٹہرے ہیں
جن پہ وقت کی گردش نے
برسہا برس کی دھول ڈھالی تھی
ذہن کے کسی کونے میں
یادوں کے کئی سلسلے چل نکلے
جن پہ گردش ایام اور غم دوراں نے پردہ ڈال رکھا تھا
بہت یادیں بہت باتیں اور کئی چہرے
دکھوں کے ساتھ تھی وابسطہ
بہت یادیں بہت باتیں اور کئی چہرے
خوشی کے دنوں کی ہیں سوغاتیں
انہی یادوں اور چہروں کے تسلسل میں
کہیں کچھ دوست تھے اپنے
کہیں کچھ چاہنے والے
اور بہت سے
رہگزر زندگی کے مختصر لمحوں کے ساتھی تھے
مگر ان سب میں
نمایاں ایک چہرہ ہے
جو سب یادوں سے گہرا ہے
تصور میں ہمارے
کئی برسوں سے آن ٹھرا ہے
جو اب کے برس بھی نہ دھندلایا ہے
نہ اس پہ وقت کی کوئی دھول جمی ہے
نہ اس پہ گردش دوراں کا سایہ ہے
خوشی کے چند لمحوں کا
حسیں وہ سرمایہ ہے Rahar Jabeen
میری تحریر بن گئے یہ شعر مرےذات کی تفسیر بن گئے
ہر لمحہ تیرےپیار کی تصویر بن گئے
میں کیا کروں میرا مقدرنہ بنے تم
یہ کم ہے کہ اور کی تقدیر بن گئے
دولت کے ترازو میں تولہ گیا ہمیں
انسان نہ ہوئےہم جاگیر بن گئے
چاہا جسے ہم نے خود سے بھی بڑھ کر
وہ اور کے خواب کی تعبیر بن گئے
رکھا تھا جنہیں ہم نے کبھی سب سے چھپا کر
ڈھل کر میرے لفظوں میں تحریر بن گئے
اک طرف کھڑے ہو کر ہم دیکھتے رہے
اس شخص کو جو محفل کی تنویر بن گئے
وہ چھوڑ گیا ہم کو اس راہ گذر پہ
اک بے نشان منزل کے ہم راہگیر بن گئے
جب بھی سراہا ہمیں نظروں میں سراہا
ہم تیری اک نگاہ کا اسیر بن گئے
میں سوچتی ہی رہ گئی بدلنے کو راستہ
تم بارہا ہی پیر کا زنجیر بن گئے Rahar Jabeen
ہر لمحہ تیرےپیار کی تصویر بن گئے
میں کیا کروں میرا مقدرنہ بنے تم
یہ کم ہے کہ اور کی تقدیر بن گئے
دولت کے ترازو میں تولہ گیا ہمیں
انسان نہ ہوئےہم جاگیر بن گئے
چاہا جسے ہم نے خود سے بھی بڑھ کر
وہ اور کے خواب کی تعبیر بن گئے
رکھا تھا جنہیں ہم نے کبھی سب سے چھپا کر
ڈھل کر میرے لفظوں میں تحریر بن گئے
اک طرف کھڑے ہو کر ہم دیکھتے رہے
اس شخص کو جو محفل کی تنویر بن گئے
وہ چھوڑ گیا ہم کو اس راہ گذر پہ
اک بے نشان منزل کے ہم راہگیر بن گئے
جب بھی سراہا ہمیں نظروں میں سراہا
ہم تیری اک نگاہ کا اسیر بن گئے
میں سوچتی ہی رہ گئی بدلنے کو راستہ
تم بارہا ہی پیر کا زنجیر بن گئے Rahar Jabeen
تجھے سوچتے رہے موسم تھا خوشگوار تجھے سوچتے رہے
یہ دل تھا بے قرار تجھے سوچتے رہے
یہ ترک تعلق تھا ہمارا ہی فیصلہ
ہم پھر بھی باربار تجھے سوچتے رہے
اب کے بھی تجھے یاد نہ کرنے کا عہد تھا
اب کے بھی سوگوارتجھے سوچتے رہے
ہرستم تیرا یاد کیا ہم نے بارہا
یوں دکھ تھے بے شمارتجھےسوچتے رہے
آنکھوں میں دید یار کی خواہش لیے ہوءے
یہ تیرے جان نثار تجھےسوچتے رہے Rahat Jabeen
یہ دل تھا بے قرار تجھے سوچتے رہے
یہ ترک تعلق تھا ہمارا ہی فیصلہ
ہم پھر بھی باربار تجھے سوچتے رہے
اب کے بھی تجھے یاد نہ کرنے کا عہد تھا
اب کے بھی سوگوارتجھے سوچتے رہے
ہرستم تیرا یاد کیا ہم نے بارہا
یوں دکھ تھے بے شمارتجھےسوچتے رہے
آنکھوں میں دید یار کی خواہش لیے ہوءے
یہ تیرے جان نثار تجھےسوچتے رہے Rahat Jabeen
اپنی ہر ایک شام ہر ایک رات سونپ کر اپنی ہرایک شام ہر ایک رات سونپ کر
وہ کھو گیا ہم کھو خیالات سونپ کر
ہم ہی سمجھ نہ پائے تھے بارہا
انہیں دکھ دے گیا ہمیں کوئ صدمات سونپ کر
لمحے تمام خوشیوں کے خود ہی سمیٹ کر
آنکھوں کو میری دے گیا برسات سونپ کر
جب بھی تراشہ ترا پیکر ہی تراشہ
لفظوں کو اپنے سارے جذبات سونپ کر
اب کی بھی ملاقات میں وہ پرشکون رہا
ہم کو نئے نئے پھر خدشات سونپ کر
ہم سے جدا ہوگیا وہ عمر بھر کے لئے
آنکھوں کو انتظار کے لحات سونپ کر
اپنی تو بنا لیں کوٹھیاں شاہوں نے لوٹ کر
لوگوں کو بے رحم و غمزدہ حالات سونپ کر
سنتے تھے رات ایک شاعر تھا مر گیا
لوگوں کو اپنے حسین نغمات سونپ کر
Rahat Jabeen
وہ کھو گیا ہم کھو خیالات سونپ کر
ہم ہی سمجھ نہ پائے تھے بارہا
انہیں دکھ دے گیا ہمیں کوئ صدمات سونپ کر
لمحے تمام خوشیوں کے خود ہی سمیٹ کر
آنکھوں کو میری دے گیا برسات سونپ کر
جب بھی تراشہ ترا پیکر ہی تراشہ
لفظوں کو اپنے سارے جذبات سونپ کر
اب کی بھی ملاقات میں وہ پرشکون رہا
ہم کو نئے نئے پھر خدشات سونپ کر
ہم سے جدا ہوگیا وہ عمر بھر کے لئے
آنکھوں کو انتظار کے لحات سونپ کر
اپنی تو بنا لیں کوٹھیاں شاہوں نے لوٹ کر
لوگوں کو بے رحم و غمزدہ حالات سونپ کر
سنتے تھے رات ایک شاعر تھا مر گیا
لوگوں کو اپنے حسین نغمات سونپ کر
Rahat Jabeen