✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Saleem Ullah Shaikh
Search
Add Poetry
Poetries by Saleem Ullah Shaikh
قبر اقبال سے آرہی رہی ہے صدا
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ،
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے،
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا،
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاج دار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصار وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارہ نہیں
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی محاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تاروں کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں
کیا افسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہیں تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہوگئے،
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے،
ڈھر بھی دو ہوگئے در بھی ہوگئے،
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں،
قبر اقبال سے آرہی رہی ہے صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
Saleem Ullah Shaikh
Copy
میں نظر سے پی رہا ہوں
میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
نہ جھُکائو تم نگاہیں کہین رات ڈھل نہ جائے
میرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
میرا جام چھونے والے تیرا ہاتھ جل نہ جائے
ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
تیرا رِند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے
میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھنا
تیرے آنے کی خوشی میں میرا دم نکل نہ جائے
مجھے پھونکنے سے پہلے میرا دل نکال لینا
یہ کسی کی ہے امانت میرے ساتھ جل نہ جائے
Saleem Ullah Shaikh
Copy
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
آج چاہوںتو سارا جہاں مول لوں
نا رسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں؟
پر وہ چھوٹا سا ، الہڑ سا لڑکا کہاں؟
Saleem Ullah Shaikh
Copy
اس بستی کے اک کوچے میں
اس بستی کے اک کوچے میں ، اک انشا نام کا دیوانہ
اک نار پہ جان کو ہار گیا، یہ مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا روپ نہ تھا، جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخے گلنار لبے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اس کی چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں، ہوا آپ ہی آپ سے بیگانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
نہ چنچل کھیل جوانی کے، نہ پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا، یا فون پہ ان کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اک زور بپھرتے ساگر میں، ناکشتی تھی ناساحل تھا
جو بات تھی ان کے جی میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
اک روز مگر برکھا رت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیے، یہ ایک کگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیماں بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دور ہوئی مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا، اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا، چپ رہتا تھا غم سہتا تھا
ناداں ہیں وہ جو چھیڑے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
اب آگے کا تحقیق نہیں، گو سنتے کو ہم سننے کو ہم سنتے تھے
اس نار کی جو جو باتیں تھیں، اس نار کے جو جو قصے تھے
اک شام جو اس کو بلوایا، کچھ سمجھایا بیچارے نے
اس رات پہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دکھیارے نے
کیا بات ہوئی، کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہنے دو
اس نار کا نام مقام ہے کیا، اس بات پر پردہ رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہو سکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہو سکتا ہے، یہ اپنی کتھا ہو سکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی ، کس کام کا ایسا پچھتانا؟
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
Saleem Ullah Shaikh
Copy
بڑی مشکل میں ڈالا مجھے فکر الیکشن نے
بڑی مشکل میں ڈالا مجھے فکر الیکشن نے
کھڑے ہیں ووٹ لینے کو کہیں ننھے کہیں بنّے
میں شاعر آدمی ٹھہرا ہزاروں ملنے والے ہیں
مرے چاروں طرف امیدواروں کے رسالے ہیں
ہزارو امیدوار وں کے مقابل میں اکیلا ہوں
ادھر اک فوج مشاقان ادھر میں ایک ٹڑوں ٹوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
انہی امیدواروں میں ہے کوئی میری محبوبہ
اسے ہر حال میں دینا پڑے گا ووٹ مطلوبہ
انہی میں ایک صاحب ایک بڑے افسر کے سالے ہیں
خطرناک آدمی ہیں با اثر ہیں پیسے والے ہیں
وہ کچھ اس قسم کے خط لکھتے ہیں شام و سحر مجھ کو
تمہیں اغواءکرادوں گا نہ دو گے ووٹ اگر مجھ کو
میں پٹنے سے نہیں ڈرتا مگر اغواءسے ڈرتا ہوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
اک ایسا شخص بھی امیدوارِ رہنمائی ہے
کہ جس سے اکثر میں نے مدرسہ میں مار کھائی ہے
انہی امیدواروں میں کوئی میرا بھتیجا ہے
کسی کی لیڈری غیروں کی سازش کا نتیجہ ہے
کسی لیڈر کی بیگم کی سہیلی ہے مری بیوی
کسی نے مجھ کو رشوت میں دیا ہے ایک عدد ٹی وی
کسی سے دور کی نسبت کسی سے پاس کا رشتہ
کسی امیدوارہ سے ہے میری ساس کا رشتہ
کہیں امیدواروں میں ہیں خود میرے بڑے ماموں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
کوئی کہتا ہے تم کو ووٹ دینا ہے ترازو کو
کوئی کہتا ہے پاور فل بناﺅ بائیں بازو کو
کوئی کہتا ہے کہ آﺅ تم کو گھوڑے پر بٹھاﺅں میں
کوئی کہتا ہے کہ تم کو سائیکل پر چھوڑ آﺅں میں
کوئی کہتا ہے کہ آجاﺅ میری چھتری کے سائے میں
میں تم کو چھوڑ آﺅں سیاست کی سرائے میں
کوئی کہتا ہے کہ حقہ بھر گیا ہے دم لگا لیجیے
کوئی کہتا ہے کہ اک عینک ہی کم سے کم لگا لیجیے
سمجھ رکھا ہے یاروں نے کہ میں بالکل ہی اندھا ہوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
کوئی کہتا ہے ہم جانباز ہے شعلوں سے کھیلے گا
کوئی کہتا ہے میرا بیلچہ خود ووٹ لے لے گا
الف لیلیٰ سناتے ہیں کسی کے والدین اپنی
سفارش کے لیے کوئی لایا ہے لالٹین اپنی
کوئی کہتا ہے بس درخواست اتنی ہے حضور اپنی
کہ اسلامی تمدن کی علامت ہے کھجور اپنی
کہیں ملتی ہے اک پرچی کے بدلے کان کی بالی
کوئی کہتا ہے میرے پاس ہے بس دھان کی بالی
وہ کوئی اور ہیں جو بیچتے ہیں جو ، چنا ، گہیوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
کوئی کہتا ہے ہم اپنے گلے میں ہار ڈالے گا
کوئی کہتا ہے میرا شیر تو کو مار ڈالے گا
کوئی کہتا ہے ہل پر ہے نگا انتخاب اپنی
کوئی کہتا ہے ہر سمبل سے بہتر ہے کتاب اپنی
الیکشن میں کہیں بوئے گل رنگیں مہکتی ہے
کہیں تیغِ سیاست ذولفقارانہ چمکتی ہے
کوئی کہتا ہے اس طوفاں میں کشتی کام آئے گی
کوئی کہتا ہے کشتی پر نہ بیٹھو ڈوب جائے گی
مجھے یہ فکر ہے ڈوبوں تو سب کے ساتھ ہی ڈوبوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
کوئی کہتا ہے ہم خر کار ہیں خر ہے نشاں اپنا
بھر ذکر اک گدھے کا اور حسن بیاں اپنا
کوئی کہتا ہے بدلے ووٹ کے لے لو رقم تگڑی
کوئی کہتا ہے تھامے رہو دونوں ہاتھوں سے پگڑی
کوئی کہتا ہے یہ کنجی کلید کامیابی ہے
اگر بھی نہ کام آئے تو قسمت کی خرابی ہے
کوئی کہتا ہے اپنے پاس تو صرف ایک کمبل ہے
کوئی کہتا ہے پیری میں عصا ہر شے سے افضل ہے
کہو تو اسی لاٹھی سے پوری قوم کو ہانکوں
میں اس ماحول سے بچ کر کدھر جاﺅں کہاں بھاگوں
یہ سوچا ہے کہ کچھ دن کے لیے ٹھٹھہ چلا جاﺅں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
Saleem Ullah Shaikh
Copy
ضربِ کلیم؛ امامت
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
Saleem Ullah Shaikh
Copy
ملاوٹ کا فائدہ
ہوکر مایوس زندگی سے میری ڈاکٹرز نے
کردیا اپنے علاج سے مجھے ریجیکٹ
تو تنگ آکر مرضِ لاعلاج سے میں نے
پی لیا پورا ایک پیالہء کوپر سیلفیٹ
سوچا تھا میں تو دوستو اور یارو کہ
ہوگا اس کا کچھ نہ کچھ تو سائیڈ ایفیکٹ
اللہ بھلا کرے لیکن ملاوٹ کرنے والوں کا
ہوگیا ہوں یارو میں تو اب بالکل پرفیکٹ
(کوپر سیلفیٹ یعنی نیلا تھوتھا)
Saleem Ullah Shaikh
Copy
تعلیم اور اس کے نتائج
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
Saleem Ullah Shaikh
Copy
عقل و دل
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمین پر، گزر فلک پر میرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
کام دنیا میں رہبری ہے میرا
مثل خضر خجستہ پا ہوں میں
ہوں مفسر کتاب ہستی کی
مظہر شان کبریا ہوں میں
بوند ایک خون کی ہے تُو لیکن
غیرتِ لعل بے بہا ہوں میں
دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں
راز ہستی کو تُو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو، خدا نما ہوں میں
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تو محفل صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں
تو زماں و مکان سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام میرا
عرش رب جلیل کا ہوں میں
Saleem Ullah Shaikh
Copy
الحاد کی تہذیب سے کب تک یہ عقیدت
الحاد کی تہذیب سے کب تک یہ عقیدت
اعیار سے یہ خوف، یہ دشمن سے مروت
کب ٹوٹے گی مانگے ہوئے افکار کی قیمت
کب تک رہیں آپس میں جدا دین و سیاست
اب چشم مسلمان پہ رہے واضح یہ حقیقت
دیں ہاتھ سے دیکر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
اے نیل کی موجو ! نہ کرو کوف کنارہ
Saleem Ullah Shaikh
Copy
میلاد کا پیغام
کسی غم گسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے دل سے میں نے بھلا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے درو بام کو تو سجا دیا
میں تیرے مزار کی جالیو ں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
اور تیرے دشمنوں نے تیرے گھر پہ ہی قبضہ جما لیا
کسی غم گسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے دل سے میں نے بھلا دیا
Saleem Ullah Shaikh
Copy
بش کی خدمت میں
غالب سے معذرت کے ساتھ
اتنابےغیرت ہےبش اے شیخ
جوتے کھا کر بے مزا نہ ہوا
اقبال سے معذرت کے ساتھ
بش کی بے غیرتی ہےالمنتظرپہ خندہ زن
جوتوں سے یہ عذاب ہٹایا نہ جائے گا
Saleem Ullah Shaikh
Copy
مسلم حکمرانوں کے لیے
شہداء نے پُکارا ہے تم کو فردوس کے بالا خانوں سے
ہم راہِ خدا میں کٹ آئے تمہیں پیار ابھی تک جانوں سے
Saleem Ullah Shaikh
Copy
سلامتی کے مشیر
نہیں جن کو کوئی تجربہ سفارت کاری
بنادیے گئے ہیں وہ پاکستان کے سفیر
حقِ دوستی یوں ادا کیا صدرصاحب نے
بنایا دوستوں کو داخلہ و سلامتی کے مشیر
Saleem Ullah Shaikh
Copy
مذمت سے آگے
ہورہے ہیں فلسطین میں جو مسلمان شہید
گزر چکے وہ مقام رنج و راحت سے آگے
دیکھنا یہ ہے شیخ کہ یہ مسلم حکمران آخر
کب بڑھیں گے قرار داد مذمت سے آگے
Saleem Ullah Shaikh
Copy
حصہ داری
طبیعت میں ان کی کچھ سادگی ہے کچھ اور کچھ پرکاری
بی بی کی موت کا کچھ تو غم بھی ہے اور کچھ فنکاری
ان کی خوش بختی کا اب کیا ٹھکانہ ہے اے شیخ
پہلے دس تو اب صد فیصد ہے صدر کی حصہ داری
Saleem Ullah
Copy
باسٹھواں سال
عوام بدحال تو حکمران مالا مال
ہوگیا ارض وطن تو بالکل کنگال
لٹتے لٹتے یہ تو ہونا ہی تھا اک دن
اس ملک کا ہے آخر یہ باسٹھواں سال
Saleem Ullah Shaikh
Copy
میرا وطن سنوار دو
حیات جس کا نام ہے بہادروں کا جام ہے
یہ جا م جھوم کر پیو جیو تو بے دھڑک جیو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
زمیں پر نہیں قدم ہوا بھی ساتھ میں نہیں
گذرتے وقت کا کوئی سرا بھی ہاتھ میں نہیں
چلے ہیں لوگ پھر کدھر پہنچنا ہے کہیں اگر
تو نفرتوں کو پیار دو میرا وطن سنوا ر دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
سجی ہیں افراتفریوں کی جھالروں سے مسندیں
نہ کچھ اصولِ سلطنت نہ اختیار کی حدیں
نظام سب الٹ گیا غبار سے جو اٹ گیا
وہ آئینہ نکھا ر دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
کسی کی کمتری کو عزت و وقار کا نشہ
کسی کو زور و زر کسی کو اقتدار کا نشہ
نشے میں دھت تمام ہیں نشے تو سب حرام ہیں
یہ سب نشے اتار دو میرا وطن سنوار دو
چنے گئے تو جو گلاب خار خار ہو گئے
بنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہوگئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
حرم کو جائے گی اگر یہ راہ گزر تو جاؤنگا
نہ جی سکا تو حق کے راستے مین مر تو جاؤنگا
کرے جو دین سے وفا چلے جو سوئے مصطفیٰ
مجھے وہ شہسوار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
Saleem Ullah Shaikh
Copy
مظلوموں کی فریاد اللہ کے دربار میں
آنسووں اور آہو ں کی روداد سن
رب کونین میری بھی فریاد سن
آج میں دہر میں سب سے مظلوم ہوں
حق پہ ہوتے ہوئے حق سے محروم ہوں
شامِ خون رنگ ہوں صبح مظلوم ہوں
جس پہ چلتے ہیں خنجر وہ حلقوم ہوں
فسطیینی مسلمانوں کا اللہ سے سوال
کب میری راہ بنے گی میری منزل یا رب
اک تیرے گھر کے لیے سارے ہی رستے چھوڑے
علم کالج میں نہیں جنگ کے میداں میں ملا
ہم نے بندوق اٹھائی تو یہ بستے چھوڑے
ہم نے رو رو کے شہادت کی دعائیں مانگیں
اور پھر اہلِ جہاں اپنے پہ ہنستے چھوڑے
اک فقط جان ہی لی اور بھلا کیا چھینا
اپنے صیاد نے پنچھی بڑے سستے چھوڑے
کب میری راہ بنے گی میری منزل یا رب
اک تیرے گھر کے لیے سارے ہی رستے چھوڑے
اسرائیل امریکہ اور بھارت کے نام
آج تمہاری خونخواری پر حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو
کیسا شوق چرایا تم کو شہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آباد کیا ہے تم نے قبرستانوں کو
اتنے بھی سفاک منافق دنیا نے کب دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو
Saleem Ullah Shaikh
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets