Add Poetry

Poetries by Saleem Ullah Shaikh

قبر اقبال سے آرہی رہی ہے صدا پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ،
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے،
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا،
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاج دار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصار وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارہ نہیں
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی محاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تاروں کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں
کیا افسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہیں تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہوگئے،
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے،
ڈھر بھی دو ہوگئے در بھی ہوگئے،
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں،
قبر اقبال سے آرہی رہی ہے صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
 
Saleem Ullah Shaikh
اس بستی کے اک کوچے میں اس بستی کے اک کوچے میں ، اک انشا نام کا دیوانہ
اک نار پہ جان کو ہار گیا، یہ مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا روپ نہ تھا، جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخے گلنار لبے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اس کی چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں، ہوا آپ ہی آپ سے بیگانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
نہ چنچل کھیل جوانی کے، نہ پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا، یا فون پہ ان کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اک زور بپھرتے ساگر میں، ناکشتی تھی ناساحل تھا
جو بات تھی ان کے جی میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
اک روز مگر برکھا رت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیے، یہ ایک کگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیماں بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دور ہوئی مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا، اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا، چپ رہتا تھا غم سہتا تھا
ناداں ہیں وہ جو چھیڑے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
اب آگے کا تحقیق نہیں، گو سنتے کو ہم سننے کو ہم سنتے تھے
اس نار کی جو جو باتیں تھیں، اس نار کے جو جو قصے تھے
اک شام جو اس کو بلوایا، کچھ سمجھایا بیچارے نے
اس رات پہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دکھیارے نے
کیا بات ہوئی، کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہنے دو
اس نار کا نام مقام ہے کیا، اس بات پر پردہ رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہو سکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہو سکتا ہے، یہ اپنی کتھا ہو سکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی ، کس کام کا ایسا پچھتانا؟
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
Saleem Ullah Shaikh
بڑی مشکل میں ڈالا مجھے فکر الیکشن نے بڑی مشکل میں ڈالا مجھے فکر الیکشن نے
کھڑے ہیں ووٹ لینے کو کہیں ننھے کہیں بنّے
میں شاعر آدمی ٹھہرا ہزاروں ملنے والے ہیں
مرے چاروں طرف امیدواروں کے رسالے ہیں
ہزارو امیدوار وں کے مقابل میں اکیلا ہوں
ادھر اک فوج مشاقان ادھر میں ایک ٹڑوں ٹوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
انہی امیدواروں میں ہے کوئی میری محبوبہ
اسے ہر حال میں دینا پڑے گا ووٹ مطلوبہ
انہی میں ایک صاحب ایک بڑے افسر کے سالے ہیں
خطرناک آدمی ہیں با اثر ہیں پیسے والے ہیں
وہ کچھ اس قسم کے خط لکھتے ہیں شام و سحر مجھ کو
تمہیں اغواءکرادوں گا نہ دو گے ووٹ اگر مجھ کو
میں پٹنے سے نہیں ڈرتا مگر اغواءسے ڈرتا ہوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
اک ایسا شخص بھی امیدوارِ رہنمائی ہے
کہ جس سے اکثر میں نے مدرسہ میں مار کھائی ہے
انہی امیدواروں میں کوئی میرا بھتیجا ہے
کسی کی لیڈری غیروں کی سازش کا نتیجہ ہے
کسی لیڈر کی بیگم کی سہیلی ہے مری بیوی
کسی نے مجھ کو رشوت میں دیا ہے ایک عدد ٹی وی
کسی سے دور کی نسبت کسی سے پاس کا رشتہ
کسی امیدوارہ سے ہے میری ساس کا رشتہ
کہیں امیدواروں میں ہیں خود میرے بڑے ماموں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
کوئی کہتا ہے تم کو ووٹ دینا ہے ترازو کو
کوئی کہتا ہے پاور فل بناﺅ بائیں بازو کو
کوئی کہتا ہے کہ آﺅ تم کو گھوڑے پر بٹھاﺅں میں
کوئی کہتا ہے کہ تم کو سائیکل پر چھوڑ آﺅں میں
کوئی کہتا ہے کہ آجاﺅ میری چھتری کے سائے میں
میں تم کو چھوڑ آﺅں سیاست کی سرائے میں
کوئی کہتا ہے کہ حقہ بھر گیا ہے دم لگا لیجیے
کوئی کہتا ہے کہ اک عینک ہی کم سے کم لگا لیجیے
سمجھ رکھا ہے یاروں نے کہ میں بالکل ہی اندھا ہوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
کوئی کہتا ہے ہم جانباز ہے شعلوں سے کھیلے گا
کوئی کہتا ہے میرا بیلچہ خود ووٹ لے لے گا
الف لیلیٰ سناتے ہیں کسی کے والدین اپنی
سفارش کے لیے کوئی لایا ہے لالٹین اپنی
کوئی کہتا ہے بس درخواست اتنی ہے حضور اپنی
کہ اسلامی تمدن کی علامت ہے کھجور اپنی
کہیں ملتی ہے اک پرچی کے بدلے کان کی بالی
کوئی کہتا ہے میرے پاس ہے بس دھان کی بالی
وہ کوئی اور ہیں جو بیچتے ہیں جو ، چنا ، گہیوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
کوئی کہتا ہے ہم اپنے گلے میں ہار ڈالے گا
کوئی کہتا ہے میرا شیر تو کو مار ڈالے گا
کوئی کہتا ہے ہل پر ہے نگا انتخاب اپنی
کوئی کہتا ہے ہر سمبل سے بہتر ہے کتاب اپنی
الیکشن میں کہیں بوئے گل رنگیں مہکتی ہے
کہیں تیغِ سیاست ذولفقارانہ چمکتی ہے
کوئی کہتا ہے اس طوفاں میں کشتی کام آئے گی
کوئی کہتا ہے کشتی پر نہ بیٹھو ڈوب جائے گی
مجھے یہ فکر ہے ڈوبوں تو سب کے ساتھ ہی ڈوبوں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
کوئی کہتا ہے ہم خر کار ہیں خر ہے نشاں اپنا
بھر ذکر اک گدھے کا اور حسن بیاں اپنا
کوئی کہتا ہے بدلے ووٹ کے لے لو رقم تگڑی
کوئی کہتا ہے تھامے رہو دونوں ہاتھوں سے پگڑی
کوئی کہتا ہے یہ کنجی کلید کامیابی ہے
اگر بھی نہ کام آئے تو قسمت کی خرابی ہے
کوئی کہتا ہے اپنے پاس تو صرف ایک کمبل ہے
کوئی کہتا ہے پیری میں عصا ہر شے سے افضل ہے
کہو تو اسی لاٹھی سے پوری قوم کو ہانکوں
میں اس ماحول سے بچ کر کدھر جاﺅں کہاں بھاگوں
یہ سوچا ہے کہ کچھ دن کے لیے ٹھٹھہ چلا جاﺅں
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
Saleem Ullah Shaikh
میرا وطن سنوار دو حیات جس کا نام ہے بہادروں کا جام ہے
یہ جا م جھوم کر پیو جیو تو بے دھڑک جیو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
زمیں پر نہیں قدم ہوا بھی ساتھ میں نہیں
گذرتے وقت کا کوئی سرا بھی ہاتھ میں نہیں
چلے ہیں لوگ پھر کدھر پہنچنا ہے کہیں اگر
تو نفرتوں کو پیار دو میرا وطن سنوا ر دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
سجی ہیں افراتفریوں کی جھالروں سے مسندیں
نہ کچھ اصولِ سلطنت نہ اختیار کی حدیں
نظام سب الٹ گیا غبار سے جو اٹ گیا
وہ آئینہ نکھا ر دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
کسی کی کمتری کو عزت و وقار کا نشہ
کسی کو زور و زر کسی کو اقتدار کا نشہ
نشے میں دھت تمام ہیں نشے تو سب حرام ہیں
یہ سب نشے اتار دو میرا وطن سنوار دو
چنے گئے تو جو گلاب خار خار ہو گئے
بنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہوگئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
حرم کو جائے گی اگر یہ راہ گزر تو جاؤنگا
نہ جی سکا تو حق کے راستے مین مر تو جاؤنگا
کرے جو دین سے وفا چلے جو سوئے مصطفیٰ
مجھے وہ شہسوار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
Saleem Ullah Shaikh
مظلوموں کی فریاد اللہ کے دربار میں آنسووں اور آہو ں کی روداد سن
رب کونین میری بھی فریاد سن
آج میں دہر میں سب سے مظلوم ہوں
حق پہ ہوتے ہوئے حق سے محروم ہوں
شامِ خون رنگ ہوں صبح مظلوم ہوں
جس پہ چلتے ہیں خنجر وہ حلقوم ہوں
فسطیینی مسلمانوں کا اللہ سے سوال
کب میری راہ بنے گی میری منزل یا رب
اک تیرے گھر کے لیے سارے ہی رستے چھوڑے
علم کالج میں نہیں جنگ کے میداں میں ملا
ہم نے بندوق اٹھائی تو یہ بستے چھوڑے
ہم نے رو رو کے شہادت کی دعائیں مانگیں
اور پھر اہلِ جہاں اپنے پہ ہنستے چھوڑے
اک فقط جان ہی لی اور بھلا کیا چھینا
اپنے صیاد نے پنچھی بڑے سستے چھوڑے
کب میری راہ بنے گی میری منزل یا رب
اک تیرے گھر کے لیے سارے ہی رستے چھوڑے
اسرائیل امریکہ اور بھارت کے نام
آج تمہاری خونخواری پر حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو
کیسا شوق چرایا تم کو شہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آباد کیا ہے تم نے قبرستانوں کو
اتنے بھی سفاک منافق دنیا نے کب دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو
Saleem Ullah Shaikh
Famous Poets
View More Poets