Poetries by SN Makhmoor
برباد کیا خود کوجو پیار کیا ہم نے برباد کیا خود کوجو پیار کیا ہم نے
سنت کے سواء سب کو چاہا جو خدا ہم نے
ایمان کی کہتا ہوں ایمان مکمل کب؟؟
گرچاہا محمد کے بن تجھ کو خدا ہم نے
تیری ہی عطا بندے بندوں کو ترے دیتے
ظالم ہیں جو سمجھے ہیں رب ان کو کہا ہم نے
اس دور ِیزیدی میں مرتے ہیں مگر چلنا
کب راہ ِحسینی پر چاہا ہے بھلا ہم نے
اعمال کی کمزوری تقدیر کے کھاتے میں
الزام کبھی خود کو پل کو نہ دیا ہم نے
Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور)
سنت کے سواء سب کو چاہا جو خدا ہم نے
ایمان کی کہتا ہوں ایمان مکمل کب؟؟
گرچاہا محمد کے بن تجھ کو خدا ہم نے
تیری ہی عطا بندے بندوں کو ترے دیتے
ظالم ہیں جو سمجھے ہیں رب ان کو کہا ہم نے
اس دور ِیزیدی میں مرتے ہیں مگر چلنا
کب راہ ِحسینی پر چاہا ہے بھلا ہم نے
اعمال کی کمزوری تقدیر کے کھاتے میں
الزام کبھی خود کو پل کو نہ دیا ہم نے
Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور)
رات مسافر اپنی بستی چھوڑ چلے رات مسافر اپنی بستی چھوڑ چلے
بند وہ سارے پلکوں کے پھر توڑ چلے
آنکھ جہاں سے دل کا عالم کہتی رہی
اشک نگر میں رسواء کر کے چھوڑ چلے
عید کے دن بھی گھر میں جل تھل خوب ہوا
پیار محبت غم سے ایسا جوڑ چلے
رات فلک سے تارے ایسے ٹوٹ گئے
یاد نگر تک رستہ پھر سے موڑ چلے
خواب سحر میں آخر آ کر چیخ پڑا
چاند ستارے سارے تنہا چھوڑ چلے
Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور)
بند وہ سارے پلکوں کے پھر توڑ چلے
آنکھ جہاں سے دل کا عالم کہتی رہی
اشک نگر میں رسواء کر کے چھوڑ چلے
عید کے دن بھی گھر میں جل تھل خوب ہوا
پیار محبت غم سے ایسا جوڑ چلے
رات فلک سے تارے ایسے ٹوٹ گئے
یاد نگر تک رستہ پھر سے موڑ چلے
خواب سحر میں آخر آ کر چیخ پڑا
چاند ستارے سارے تنہا چھوڑ چلے
Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور)
خون َ دل سے میں کتابت کر لوں خون ِ دل سے میں کتابت کر لوں
شعر کہنے کی ریاضت کر لوں
زندگی میں ہے مسلسل مشکل
آپ کہتے ہیں محبت کر لوں
قد تکبر نہ گھٹا دے میرا
اپنا ہی ذکر ِ جہالت کر لوں
ہو گئی جھوٹ کی عادت ایسی
سوچتا ہوں میں سیاست کر لوں
محض عادت ہی سدا رہتی ہے
میں نمازوں کو عبادت کر لوں
اب ملاقات ہو میری مجھ سے
خود پہ اتنی تو عنایت کر لوں
در ِ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوالی بن کر
مفلسی میں بھی امارت کر لوں Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور)
شعر کہنے کی ریاضت کر لوں
زندگی میں ہے مسلسل مشکل
آپ کہتے ہیں محبت کر لوں
قد تکبر نہ گھٹا دے میرا
اپنا ہی ذکر ِ جہالت کر لوں
ہو گئی جھوٹ کی عادت ایسی
سوچتا ہوں میں سیاست کر لوں
محض عادت ہی سدا رہتی ہے
میں نمازوں کو عبادت کر لوں
اب ملاقات ہو میری مجھ سے
خود پہ اتنی تو عنایت کر لوں
در ِ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوالی بن کر
مفلسی میں بھی امارت کر لوں Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور)
اقبال بیاں پھر کیسے ہو دیکھا جو تماشا ہے اکثر اقبال بیاں پھر کیسے ہو دیکھا جو تماشا ہے اکثر
قانون ِ بشر اس نگری میں قرآن سے بالا ہے اکثر
اس دیس کی مٹی کہتی ہے حاکم کو بتا دو جاکر یہ
ہر تاج کو مٹی میں ملتا محکوم نے دیکھا ہے اکثر
تاریک لبادوں سے ممکن انصاف کا ملنا ہو کیسے
منصف نے ضرورت میں اپنے ایمان کو بیچا ہے اکثر
حاکم کو برا کیوں کہتے ہو خود اپنے گریباں میں جھانکو
سلطان کی غلطی میں شامل جمہور کو پایا ہے اکثر
رہزن کو بنا کر رہبر پھر منزل کو بھٹکتے رہتے ہیں
یہ خوب تماشا لوگوں کا افلاک نے دیکھا ہے اکثر
Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور)
قانون ِ بشر اس نگری میں قرآن سے بالا ہے اکثر
اس دیس کی مٹی کہتی ہے حاکم کو بتا دو جاکر یہ
ہر تاج کو مٹی میں ملتا محکوم نے دیکھا ہے اکثر
تاریک لبادوں سے ممکن انصاف کا ملنا ہو کیسے
منصف نے ضرورت میں اپنے ایمان کو بیچا ہے اکثر
حاکم کو برا کیوں کہتے ہو خود اپنے گریباں میں جھانکو
سلطان کی غلطی میں شامل جمہور کو پایا ہے اکثر
رہزن کو بنا کر رہبر پھر منزل کو بھٹکتے رہتے ہیں
یہ خوب تماشا لوگوں کا افلاک نے دیکھا ہے اکثر
Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور)
بکھرتی رات جب شبنم سے سجتی ہے بکھرتی رات جب شبنم سے سجتی ہے
مری پلکوں سے اشکوں کو وہ چنتی ہے
چراغ ِ ہجر میں جلتا ہے دل میرا
ہوا جب موسم ِ سرما کی چلتی ہے
زماں میں منجمد دریا جو ہوتے ہیں
تو اشکوں میں روانی خوب ہوتی ہے
زماں سمجھے فلک سے اوس ہے اتری
زمیں گل کی مرے اشکوں سے سجتی ہے
ردائے کہر میں چھپتی سحر اکثر
ٹھٹھرتی رات کی آہوں کو سنتی ہے
دسمبر میں نہ جانے کیا ہوا ایسا
سلگتی جاں ، نظر بھیگی ہی ملتی ہے
SN Makhmoor
مری پلکوں سے اشکوں کو وہ چنتی ہے
چراغ ِ ہجر میں جلتا ہے دل میرا
ہوا جب موسم ِ سرما کی چلتی ہے
زماں میں منجمد دریا جو ہوتے ہیں
تو اشکوں میں روانی خوب ہوتی ہے
زماں سمجھے فلک سے اوس ہے اتری
زمیں گل کی مرے اشکوں سے سجتی ہے
ردائے کہر میں چھپتی سحر اکثر
ٹھٹھرتی رات کی آہوں کو سنتی ہے
دسمبر میں نہ جانے کیا ہوا ایسا
سلگتی جاں ، نظر بھیگی ہی ملتی ہے
SN Makhmoor
مرا دل یہ بھلا کس کا جہاں ہوتا مرا دل یہ بھلا کس کا جہاں ہوتا
نہ ہوتا گر میں تو پھر تو کہاں ہوتا
عطا ہوتا نہیں عرفان ہستی کو
نہیں مجھ پرکبھی تو جو عیاں ہوتا
وہ جو شوق ِ بلندی کا جنوں رہتا
فلک کا شاہ ،شاہیں ہر جواں ہوتا
نہ ا سکی جستجو ہوتی کبھی مجھ کو
اگر جو سا تھ میرے وہ یہاں ہوتا
یوں دربدری میں کٹتی زندگی ساری
جو ہو کے مجھ میں تو مجھ سے نہاں ہوتا
اگر اقبال کو پڑھتا عقیدت سے
فلک سے آگے دھرتی کا جواں ہوتا
SN Makhmoor
نہ ہوتا گر میں تو پھر تو کہاں ہوتا
عطا ہوتا نہیں عرفان ہستی کو
نہیں مجھ پرکبھی تو جو عیاں ہوتا
وہ جو شوق ِ بلندی کا جنوں رہتا
فلک کا شاہ ،شاہیں ہر جواں ہوتا
نہ ا سکی جستجو ہوتی کبھی مجھ کو
اگر جو سا تھ میرے وہ یہاں ہوتا
یوں دربدری میں کٹتی زندگی ساری
جو ہو کے مجھ میں تو مجھ سے نہاں ہوتا
اگر اقبال کو پڑھتا عقیدت سے
فلک سے آگے دھرتی کا جواں ہوتا
SN Makhmoor
مزدوری ہم کرتے ہیں مزدوری ہم کرتے ہیں
بار ِ جیون ڈھوتے ہیں
بھاگیں روٹی کے پیچھے
جیون بھر یہ کرتے ہیں
مسجد دیکھی مسلک کی
ایسے مسلم ہوتے ہیں
مسجد مسجد دیکھا پر
بندے اب کب ملتے ہیں
دنیا جیسے ایماں ہو
ایسے اب ہم رہتے ہیں
ہم ہی ملزم ہیں اپنے
شکوہ رب سے کرتے ہیں
دل کی لگتی کہتا ہوں
سچ اب ہم کب کہتے ہیں
ہم بھی ظالم ہیں یارو
ظلمت میں چپ رہتے ہیں
سچ تو لگتا ہے کڑوا
اچھا اب ہم چلتے ہیں SN Makhmoor
بار ِ جیون ڈھوتے ہیں
بھاگیں روٹی کے پیچھے
جیون بھر یہ کرتے ہیں
مسجد دیکھی مسلک کی
ایسے مسلم ہوتے ہیں
مسجد مسجد دیکھا پر
بندے اب کب ملتے ہیں
دنیا جیسے ایماں ہو
ایسے اب ہم رہتے ہیں
ہم ہی ملزم ہیں اپنے
شکوہ رب سے کرتے ہیں
دل کی لگتی کہتا ہوں
سچ اب ہم کب کہتے ہیں
ہم بھی ظالم ہیں یارو
ظلمت میں چپ رہتے ہیں
سچ تو لگتا ہے کڑوا
اچھا اب ہم چلتے ہیں SN Makhmoor
کبھی ہم نوا کبھی اجنبی اسی حال میں رہی زندگی کبھی ہم نوا کبھی اجنبی اسی حال میں رہی زندگی
کبھی مل گئی کبھی کھو گئی اسی حال میں رہی زندگی
یہ ہی کل مرا یہ ہی آج ہے کبھی میں جدا کبھی وہ جدا
کبھی میں خفا کبھی وہ لڑی اسی حال میں رہی زندگی
تری بندگی میں جیا مگر مری بندگی بھی کیا ہوئی ؟؟؟
تری ذات مجھ پہ نہاں رہی اسی حال میں رہی زندگی
کبھی تاج پر کبھی پا تلے رہی بےکلی میں گھڑی گھڑی
اسی حال میں رہی زندگی اسی حال میں رہی زندگی
وہ جو قوم تھی کبھی اک صدا یونہی ٹکڑیوں میں وہ بٹ گئی
کبھی یا خدا کبھی یا نبی اسی حال میں رہی زندگی
SN Makhmoor
کبھی مل گئی کبھی کھو گئی اسی حال میں رہی زندگی
یہ ہی کل مرا یہ ہی آج ہے کبھی میں جدا کبھی وہ جدا
کبھی میں خفا کبھی وہ لڑی اسی حال میں رہی زندگی
تری بندگی میں جیا مگر مری بندگی بھی کیا ہوئی ؟؟؟
تری ذات مجھ پہ نہاں رہی اسی حال میں رہی زندگی
کبھی تاج پر کبھی پا تلے رہی بےکلی میں گھڑی گھڑی
اسی حال میں رہی زندگی اسی حال میں رہی زندگی
وہ جو قوم تھی کبھی اک صدا یونہی ٹکڑیوں میں وہ بٹ گئی
کبھی یا خدا کبھی یا نبی اسی حال میں رہی زندگی
SN Makhmoor
مانا سخنور وہ بڑا مشہور ہے مانا سخنور وہ بڑا مشہور ہے
مسلہ مگر یہ ہے ذرا مغرور ہے
ہوگی ہدایت اب زمانے کی کیا؟؟
عادت سے لکھنے والا جب مجبور ہے
خمر ِ صداقت ہم نے چھوڑی ہی نہیں
بد نام جتنا بھی کرو منظور ہے
لگتا ہے عالم خمر خانہ ہی ہمیں
منہ سے لگانے پر جہاں مجبور ہے
اپنی مٹا دے ذات وہ عاشق کہاں
اب کون ایسا پھر ہوا منصور ہے
پی کر جیا ہے خمر حاجت کی جہاں
دنیا مجھے ناحق کہے مخمور ہے
SN Makhmoor
مسلہ مگر یہ ہے ذرا مغرور ہے
ہوگی ہدایت اب زمانے کی کیا؟؟
عادت سے لکھنے والا جب مجبور ہے
خمر ِ صداقت ہم نے چھوڑی ہی نہیں
بد نام جتنا بھی کرو منظور ہے
لگتا ہے عالم خمر خانہ ہی ہمیں
منہ سے لگانے پر جہاں مجبور ہے
اپنی مٹا دے ذات وہ عاشق کہاں
اب کون ایسا پھر ہوا منصور ہے
پی کر جیا ہے خمر حاجت کی جہاں
دنیا مجھے ناحق کہے مخمور ہے
SN Makhmoor
گنہ کرنے کی خاطر میں جہاں میں ہر جگہ بھٹکا گنہ کرنے کی خاطر میں جہاں میں ہر جگہ بھٹکا
زمانے سے چھپا لیکن جہاں پہنچا خدا ہوتا
مجھےلا دے مرا بچپن وہ مٹی کے کھلونے سب
چمکتے زر جواہر میں مرا دل اب نہیں لگتا
گلے مجھ سے ملا جگ یہ مکیں گھر کے مگر میرے
وہ ہی سچے وہ ہی اپنے نہیں ان سا مرا اپنا
مری آنکھوں میں کٹتی ہیں مری راتیں مرے ہمدم
زمیں میرا بچھونا ہے ترا مخمل لگے کانٹا
گھٹن لگتی مجھے یاروں امیروں کے محلے میں
میں غربت کا رہا عادی امیروں میں نہیں رہتا
مری مشکل رضا تیری تری مرضی خوشی میری
جبیں میری نگوں یارب کبھی شکوہ نہیں کرتا
مری نسبت محمد ہیں مرا گھر بھی علی کا ہے
صداقت ہے سخن میرا کبھی سید نہیں ڈرتا SN Makhmoor
زمانے سے چھپا لیکن جہاں پہنچا خدا ہوتا
مجھےلا دے مرا بچپن وہ مٹی کے کھلونے سب
چمکتے زر جواہر میں مرا دل اب نہیں لگتا
گلے مجھ سے ملا جگ یہ مکیں گھر کے مگر میرے
وہ ہی سچے وہ ہی اپنے نہیں ان سا مرا اپنا
مری آنکھوں میں کٹتی ہیں مری راتیں مرے ہمدم
زمیں میرا بچھونا ہے ترا مخمل لگے کانٹا
گھٹن لگتی مجھے یاروں امیروں کے محلے میں
میں غربت کا رہا عادی امیروں میں نہیں رہتا
مری مشکل رضا تیری تری مرضی خوشی میری
جبیں میری نگوں یارب کبھی شکوہ نہیں کرتا
مری نسبت محمد ہیں مرا گھر بھی علی کا ہے
صداقت ہے سخن میرا کبھی سید نہیں ڈرتا SN Makhmoor
وہ ملا مگر وہ ملا نہیں وہ ملا مگر وہ ملا نہیں
مرا تھا مگر وہ ہوا نہیں
یہ عجب ہوا مرا ہمسفر
مرے ساتھ ساتھ چلا نہیں
جو ضرورتیں مجھے آ پڑیں
کوئی آشنا پھر دکھا نہیں
وہ شجر ہے کس کی دعا تلے
جو کہ آندھیوں میں گرا نہیں
وہ گمان تھا کہ یقین تھا
تھا وہ جو بھی دل سے گیا نہیں
میں محبتوں کا چراغ ہوں
کبھی آندھیوں سے بجھا نہیں
مری نسبتیں ہیں حسین سے
میں یزیدیوں سے ڈرا نہیں SN Makhmoor
مرا تھا مگر وہ ہوا نہیں
یہ عجب ہوا مرا ہمسفر
مرے ساتھ ساتھ چلا نہیں
جو ضرورتیں مجھے آ پڑیں
کوئی آشنا پھر دکھا نہیں
وہ شجر ہے کس کی دعا تلے
جو کہ آندھیوں میں گرا نہیں
وہ گمان تھا کہ یقین تھا
تھا وہ جو بھی دل سے گیا نہیں
میں محبتوں کا چراغ ہوں
کبھی آندھیوں سے بجھا نہیں
مری نسبتیں ہیں حسین سے
میں یزیدیوں سے ڈرا نہیں SN Makhmoor
ہر جا ہو کر آیا دل ہر جا ہو کر آیا دل
ہر سو تجھ کو پایا دل
تن میں بن میں من میں تُو
تجھ پر میر ا آیا دل
دنیا فانی ہے یارو
دنیا سے گبھرایا دل
بندہ عاجز عاصی ہے
نیکی نہ کر پایا دل
تجھ کو جب سے چاہا ہے
دل کو پھر نہ بھایا دل
غربت میں بھی شاہی ہے
جب سے تجھ پر آیا دل
تجھ سے جڑ کے دے دوں سب
ایسا اب ہوں دریا دل
دنیا مایا ہے مخمور
دنیا سے اُکتایا دل SN Makhmoor
ہر سو تجھ کو پایا دل
تن میں بن میں من میں تُو
تجھ پر میر ا آیا دل
دنیا فانی ہے یارو
دنیا سے گبھرایا دل
بندہ عاجز عاصی ہے
نیکی نہ کر پایا دل
تجھ کو جب سے چاہا ہے
دل کو پھر نہ بھایا دل
غربت میں بھی شاہی ہے
جب سے تجھ پر آیا دل
تجھ سے جڑ کے دے دوں سب
ایسا اب ہوں دریا دل
دنیا مایا ہے مخمور
دنیا سے اُکتایا دل SN Makhmoor
لطف ہے ستانے میں لطف ہے ستانے میں
آپ کو جلانے میں
رابطے ضروری ہیں
زندگی بنانے میں
چاند توڑلا ئیں ہم
آپ کو منانے میں
آپ ہیں بڑے اچھے
بے رخی دکھانے میں
موت تو ہوئی لازم
سچ کو اب سنانے میں
آپ کی ضرورت ہے
زندگی بیتانے میں
زندگی گزرتی ہے
زندگی بھلانے میں
جان بھی لٹا دیں گے
دین کو بچانے میں
رنجشیں مقابل ہیں
گھر کو لوٹ جانے میں
ٍ
خون ِ دل بہاتے ہیں
اک غزل بنانے میں
خود سے نہیں ملتے
یاد ِ جاں بھلانے میں
زن بہت ضروری ہے
گھر کو گھر بنانے میں
زندگی گزرجاوے
حال ِ دل سنانے میں SN Makhmoor
آپ کو جلانے میں
رابطے ضروری ہیں
زندگی بنانے میں
چاند توڑلا ئیں ہم
آپ کو منانے میں
آپ ہیں بڑے اچھے
بے رخی دکھانے میں
موت تو ہوئی لازم
سچ کو اب سنانے میں
آپ کی ضرورت ہے
زندگی بیتانے میں
زندگی گزرتی ہے
زندگی بھلانے میں
جان بھی لٹا دیں گے
دین کو بچانے میں
رنجشیں مقابل ہیں
گھر کو لوٹ جانے میں
ٍ
خون ِ دل بہاتے ہیں
اک غزل بنانے میں
خود سے نہیں ملتے
یاد ِ جاں بھلانے میں
زن بہت ضروری ہے
گھر کو گھر بنانے میں
زندگی گزرجاوے
حال ِ دل سنانے میں SN Makhmoor
تری رحمتیں بے شمار ہیں تری نعمتیں بے شمار ہیں تری رحمتیں بے شمار ہیں تری نعمتیں بے شمار ہیں
مری لرزشوں پہ نوازشیں تری الفتیں بے شمار ہیں
یہ زمیں فلک یہ جہان کل تری دسترس میں ہے ہر گھڑی
تری عظمتیں بے شمار ہیں تری قدرتیں بے شمار ہیں
مجھے کیا پتہ مری حاجتیں مری حاجتوں کی خبر تجھے
تو ہی پالتا ہے جہان کو تری بخششیں بے شمار ہیں
وہ جو ہے نہاں مری آنکھ سےترے روبرو وہ ہے کل عیاں
تو کبیر ہے تو بصیر ہے تری عظمتیں بے شمار ہیں
جو گزر گیا، جو ہے آئے گا وہ تمام تو ہی ہےجانتا
تو علیم ہے تو خبیر ہے تری قدرتیں بے شمار ہیں
تری عظمتوں کا شمارکیا تو ہی خالق ِ دو جہان ہے
تو جلیل ہے تو حمید ہے تری مدحتیں بے شمار ہیں
تو ہی خاک کو کرے زندگی ، تو ہی زندگی کو فنا کرے
تری دسترس میں ہے کیا نہیں تری طاقتیں بے شمار ہیں
نہ سمجھ سکےیہ جہان کچھ نہ خیال میں کبھی آ سکیں
یہ جو قسمتوں کے ہیں فیصلے تری حکمتیں بےشمار ہیں
جو کروں سدا میں بیاں مگرنہ ہی ابتدا ذرا ہو سکے
بھلا کس زباں سے بیاں ہوئیں تری رحمتیں بے شمار ہیں
ترے نام سے ہے سکون ِ دل ترے نام سے ہی شاد ہوں
میں نوازشوں سے نہال ہوں تر ی نعمتیں بے شمار ہیں
نہ بیان میں کبھی آسکیں ترے مصطفےﷺ کی حقیقتیں
تری ان ﷺسے جو ہیں محبتیں تری چاہتیں بے شمار ہیں SN Makhmoor
مری لرزشوں پہ نوازشیں تری الفتیں بے شمار ہیں
یہ زمیں فلک یہ جہان کل تری دسترس میں ہے ہر گھڑی
تری عظمتیں بے شمار ہیں تری قدرتیں بے شمار ہیں
مجھے کیا پتہ مری حاجتیں مری حاجتوں کی خبر تجھے
تو ہی پالتا ہے جہان کو تری بخششیں بے شمار ہیں
وہ جو ہے نہاں مری آنکھ سےترے روبرو وہ ہے کل عیاں
تو کبیر ہے تو بصیر ہے تری عظمتیں بے شمار ہیں
جو گزر گیا، جو ہے آئے گا وہ تمام تو ہی ہےجانتا
تو علیم ہے تو خبیر ہے تری قدرتیں بے شمار ہیں
تری عظمتوں کا شمارکیا تو ہی خالق ِ دو جہان ہے
تو جلیل ہے تو حمید ہے تری مدحتیں بے شمار ہیں
تو ہی خاک کو کرے زندگی ، تو ہی زندگی کو فنا کرے
تری دسترس میں ہے کیا نہیں تری طاقتیں بے شمار ہیں
نہ سمجھ سکےیہ جہان کچھ نہ خیال میں کبھی آ سکیں
یہ جو قسمتوں کے ہیں فیصلے تری حکمتیں بےشمار ہیں
جو کروں سدا میں بیاں مگرنہ ہی ابتدا ذرا ہو سکے
بھلا کس زباں سے بیاں ہوئیں تری رحمتیں بے شمار ہیں
ترے نام سے ہے سکون ِ دل ترے نام سے ہی شاد ہوں
میں نوازشوں سے نہال ہوں تر ی نعمتیں بے شمار ہیں
نہ بیان میں کبھی آسکیں ترے مصطفےﷺ کی حقیقتیں
تری ان ﷺسے جو ہیں محبتیں تری چاہتیں بے شمار ہیں SN Makhmoor
ضرورت کب کتابوں کی ضرورت کب کتابوں کی
حکومت ہے گنواروں کی
ہوا نے کی حفاظت خود
یہاں جلتے چراغوں کی
خبر کے دام لگتے ہیں
صحافت ہے لفافوں کی
ہنر تو سر پٹختا ہے
یہاں عزت حوالوں کی
گوارہ ہو امیروں سے
اجازت ہے سوالوں کی؟
امیدوں کو سجا رکھو
ضرورت ہے اجالوں کی
تشکر میں فدا گل ہیں
وفا ایسی ہے خاروں کی
ضیا کو بھی ضرورت ہے
یہاں روشن اجالوں کی
س ن مخمور
امر تنہائی SN Makhmoor
حکومت ہے گنواروں کی
ہوا نے کی حفاظت خود
یہاں جلتے چراغوں کی
خبر کے دام لگتے ہیں
صحافت ہے لفافوں کی
ہنر تو سر پٹختا ہے
یہاں عزت حوالوں کی
گوارہ ہو امیروں سے
اجازت ہے سوالوں کی؟
امیدوں کو سجا رکھو
ضرورت ہے اجالوں کی
تشکر میں فدا گل ہیں
وفا ایسی ہے خاروں کی
ضیا کو بھی ضرورت ہے
یہاں روشن اجالوں کی
س ن مخمور
امر تنہائی SN Makhmoor