آؤ غم کا مکاں بناتے ہیں
گارا بھی ہجر کا لگاتے ہیں
جو ہمیں دل سے اچھے لگتے ہیں
وہ ہمیشہ ہمیں ستاتے ہیں
یار ٹینشن نہ لے فضول میں تو
بیٹھ چائے تجھے پلاتے ہیں
خالی چائے نہیں مزہ دے گی
ساتھ بسکٹ تجھے کھلاتے ہیں
ایک سگریٹ مجھے پلا یارا
اپنے غم کا دھواں اڑاتے ہیں
ایک تصویر یادوں کی بنا کر
روز دل سے اسے لگاتے ہیں
آتا ہے شہر پہ تو موسمِ گل
پتے میرے شجر کے ڈھاتے ہیں
آئیں مہمان جیسے ہی گھر میں
میزباں اب تو منہ بناتے ہیں
جب نئے دوستانے بن جائیں
پھر پرانے تو بھول جاتے ہیں
جی جی کر کے یہاں تو سب عامرؔ
لوگوں سے فائدہ کماتے ہیں