آئے تو ہو طبیاں، تدبیر گر کرو تم
ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم
رنگِ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں ہے
اک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم
اُس بزمِ خوش کے محرم نا آشنا ہیں سارے
کس کو کہوں کہ واں تک میری خبر کرو تم
ہے پیچ دار از بس راہِ وصال و ہجراں
ان دو ہی منزلوں میں برسوں سفر کرو تم
یہ ظلم ہے تو ہم بھی اس زندگی سے گزرے
سوگند ہے تمہیں اب جو درگزر کرو تم
روئے سخن کہاں*تک غیروں کی اور آخر
ہم بھی تو آدمی ہیں ٹک منھ ادھر کرو تم
(ق)
ہو عاشقوں میں اُس کے تو آؤ میر صاحب
گردن کو اپنی مُو سے باریک تر کرو تم
کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ تیغ کھینچے
سینہ سپر کریں ہم، قطعِ نظر کرو ت