آئے جو تیرے ساتھ میرا نام غم نہ کر
سر لے میری طرح سے یہ الزام غم نہ کر
لگتی ہیں اہلِ دل پہ زمانے کی تہمتیں
لکھا ہے یہی عشق کا انجام غم نہ کر
بچھتا رہے گا یونہی یہ پہروں کا سلسلہ
بچھتے رہیں گے اور بھی کچھ دام غم نہ کر
تو ب ھی میری طرح سے اندھیروں کو روک لے
سہہ لے خوشی سے تلخی ایام غم نہ کر
تو بھی ان آنسوؤں کو ستاروں کا نام دے
میں بھی نہ رکھوں آہوں سے کچھ کام غم نہ کر
راہوں کے پیچ و خم رہیں ٹھوکر کی نوک پر
رکھنا ہے ہمیں حوصلہ ہر گام غم نہ کر
ممکن نہیں کہ صبح کا ستارہ طلوع نہ ہو
ٹھہری کہاں ہے آ کے کوئی شام غم نہ کر