آتا نہیں ہے دل یہ میرے اختیار میں
کیسا نشہ ہوا ہے صنم تیرے پیار میں
دھوکہ ملا جو یار سے ہستی سنور گئی
جو پہلے مٹ چکی تھی صنم اعتبار میں
اے موت تو ملے گی تو غم ہونگے سب پرے
اٹکی ہوئی ہے سانس تیرے انتظار میں
راحت ملی ہے رخ جو دکھا ہے تیرا صنم
یوں قید ہوگیا ہوں میں تیرے خمار میں
پتھر لگا مجھے تو خبر یہ ہوئی مجھے
ہوتا نہی علاج یہاں پر ادھار میں
میں مشکلوں میں پلتا گیا سوچ کر یہی
رکھتا ہے خود خدا تو گلابوں کو خار میں
سب نیکیاں یہ میری نہ گنتی میں آسکیں
جو خامیاں تھی آگئی بس وہ شمار میں
مولا علی ع کا تھا یہ ہنر کافروں کو جو
دوزخ رسید کرتے فقط ایک وار میں
آصف کرم ہے تجھ پہ خدا کا بہت بڑا
شامل ہے تو غلام_ علی ع کی قطار میں