آزمانے کے لئے اس کا کرم نکلے ہیں
آج بت خانے سے ہم سوئے حرم نکلے ہیں
کیسے تخلیق ہوئی، بعد اجل کیا ہو گا
ان سوالوں ہی سے سب دین و دھرم مکلے ہیں
غلبہ تھا ذہن پہ رنگین سے کچھ خوابوں کا
عشق میں ڈوبے تو اب سارے بھرم نکلے ہیں
کھائے ہیں اہل زباںخوف ستم گر کتنا
لب بھی خاموش ہیں، کاغذ نہ قلم نکلے ہیں
ضد ہے اس یار کو ہرگز نہ اٹھائے گا نقاب
کھا کے دیدار کی پر ہم بھی قسم نکلے ہیں
فخر سے قوت باطل کو کیا ہے مفلوج
جب ذرا سر پہ کفن باندھ کے ہم نکلے ہیں
پلٹے اوراق ذرا آج جو کچھ ماضی کے
ہر ستم ان کے ‘حسن‘ دل پہ رقم نکلے ہیں