آج بچھڑے ہوئے یاروں کی بہت یاد آئی
مجھکو بھی جان سے پیاروں کی بہت یاد آئی
جن کے سائے تلے ہم پل بھر کے لئے بیٹھے تھے
مُجھکو اُن ٹوٹی دیواروں کی بہت یاد آئی
آج بکھرا ہوں جو خزاؤں کے پتوں کی طرح
آج پھر گزری بہاروں کی بہت یاد آئی
تُم میری دُنیا سے بہت دور بسے ہو پھر بھی
تیری آنکھوں کے اشاروں کی بہت یاد آئی
ملا نہ جب سکوں ساجد کو بچھڑ کر تُم سے
تیری بانہوں کے سہاروں کی بہت یاد آئی