بھیگ جانے دے مجھے آج نہ روک
آگ بجھانے دے مجھے آج نہ روک
پیاسے صدیوں کے دل کو آج نہ روک
پیاس بجھانے دے مجھے آج نہ روک
جلا رہی ہے ٹھنڈی ہوا اسے آج نہ روک
جلنے دے مجھے خوب آج نہ روک
تڑپا رہی ہے یاد، آنے دے اسے آج نہ روک
زخم دکھا رہی ہے میرے، دکھانے دے اسے آج نہ روک
ہر لمحہ ستا رہی ہے یاد ،اسے آج نہ روک
بہت رلا رہی ہے مجھے ، رلانے دے، آج نہ روک
میری جان لٹ رہی ہے ، لٹ جانے دے آج نہ روک
وادی ارماں مٹ رہی ہے میری، مٹ جانے دے،آج نہ روک
ہستی احمدکی بے خودی میں ہے، رہنے دے آج نہ روک
بستی احمد کی اجڑ رہ ہے ، اجڑ جانے دے ، آج نہ روک