آج چہچہاتے ہیں کل مگر نہیں ہوں گے

Poet: رشید حسرتؔ By: رشید حسرتؔ, کوئٹہ
Aaj ChehChahate Hain Kal Magar Nahi Hon Ge

آج چہچہاتے ہیں کل مگر نہیں ہوں گے
آشنا سے یہ چہرے بام پر نہیں ہوں گے

دل پہ ڈال کر ڈاکہ چُھپ کے بیٹھ جاتے ہیں
جا کے دیکھ لیں لیکن، لوگ گھر نہیں ہوں گے

پی کے ہم بہکتے تھے چھوڑ دی ہے اب یارو
کھائی ہے قسم ہم نے، ہونٹ تر نہیں ہوں گے

اُس کے من پسندوں میں ہم اگر نہیں شامل
جان بھی لُٹا دیں تو معتبر نہیں ہوں گے

نا ہؤا میسّر گر ساتھ آپ کا تو پھر
چند گام رستے بھی مختصر نہیں ہوں گے

ہم سے لاج چاہت کی، آبرو محبّت کی
ناز کون اُٹھائے گا، ہم اگر نہیں ہوں گے

مشورہ دیا تم کو، قیمتی ہیں یہ الفاظ
گر عمل کرو گے تو، بے اثر نہیں ہوں گے

رہبری کے پردے میں راج رہزنوں کا ہے
آج ہم نہیں یا پِھر، راہبر نہیں ہوں گے

درد وہ مِلا حسرتؔ جاں بچانے کے حربے
جتنے آزماؤ گے، کارگر نہیں ہوں گے

Rate it:
Views: 1298
27 Aug, 2021
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL