آج کا دن بھی گزر جانے دے
میری امید نکھر جانے دے
غبار حسرت بھی دھل جائے گا
دل میں طوفان اتر جانے دے
گرد آزردگی چھٹ جائے گی
ابھی کچھ اور بکھر جانے دے
کون کب کیسے یہاں آئے گا
سب بتائیں گے سنور جانے دے
کھول زنجیر پا ذرا عظمٰی
اور مجھ کو بھی ادھر جانے دے