آج کاغذ کو آگ کرنے دو
اشک سمندر کو جھاگ کرنے دو
دل گرفتگی اداس موسم کی
انڈیل دوں
حرفوں کے سمندر میں
وقت کی ریت کو
دھیرے دھیرے
زیست ساحل کا راگ کرنے دو
الجھنیں بڑھ نہ جائیں دفعتاً
ان کو ماھی بے آب کرنے دو
اک ماھی گیر
شیرازی سا
آہ
پھانس لے جال میں عذابوں کو
مقدر کر چکے گلابوں کو
آج کاغذ کو نم کرنے دو
ھے کٹھن___مگر چلو یونہی
بناء ڈھارس
خود کو بےغم ذرا کرنے دو