آج کے دن تجدید وفا کیسے کروں
آج کے دن صف ماتم تھی بچھائی تو نے
آہ و زاری کی اک شمع تھی جلائی تو نے
لرزہ طاری ھے اب اس مرض کی دوا کیسے کروں
آج کے دن تجدید وفاء کیسے کروں
بیقراری میں جو جلا تھا بدن خاک ہوا
نقش جو آنکھ میں آیا تھا وہی راکھ ہوا
چہرے پہ غم کی سیاھی میں گلہ کیسے کروں
آج کے دن تجدید وفاء کیسے کروں
یہی ھے وہ دن جب تو نے مجھے چھوڑا تھا
میری ہر خواہش اور تمنا کو یوں توڑا تھا
درد کے صحرا میں ھے قدم اب اسکو جدا کیسے کروں
آج کے دن تجدید وفاء کیسے کروں