کتنی امیدوں سے بنایا تھا ہم نے آشیاں
کیا بیت رہی ہے اس پہ کیسے کروں بیاں
کس نام پہ وطن لیا تھا کیا کام یہاں پہ ہوتا ہے
خلوت میں بھی جو ممنوع تھا کبھی سرعام یہاں پہ ہوتا ہے
عزت کی قیمت گر گئی ایمان بھی آخر بکنے لگے
چیزوں کی تجارت سنتے تھے انسان بھی آخر بکنے لگے
گھر سے باہر نکلتے ہوئے لوگ اب تو ڈرنے لگے
جیسے کیڑوں کو کچل دے کوئی یوں انسان مرنے لگے
مرنے والوں کے لواحقین لاشوں پہ آ کے روتے ہیں
جلوس بھی نکلتے ہیں پھر ہنگامے بھی ہوتے ہیں
چیخ چیخ کے آخر کار لوگ تھک جاتے ہیں
رفتہ رفتہ اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں
یہاں آگے بڑھنے کو کوئی قدم سے قدم ملائے کیسے
جب رہبر ہی رہزن بن جائیں تو منزل تک کوئی جائے کیسے
درد کے مارے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال آتا ہے
لب تو ساکن ہیں مگر آنکھوں میں سوال آتا ہے
یہ زندگی بے سر و ساماں کب تک آخر کب تک
یہ دشمن انساں کا انساں کب تک آخر کب تک