آرائش بزم آدم پر حوروں کے نام
تجدید جام ھنر ساقی کے دوروں کے نام
یہ جو رگ و جاں میں ہے قیامت برپا
اک قطرے سے اُٹھتے ھوئے اُن بھنوروں کے نام
دست قاتل سے جو والھانہ سلام آتے ہیں
منصف نے کیے ہیں بس سزاور چوروں کے نام
کیوں تم نے سُن کر جدائی میرا مقدر کردی
وہ خط جو آُوروں نے لکھے تھے اوروں کے نام
کیوں نہ میں اپنے جذبوں کی تعمیر میں لکھدوں
طوفان میں کھڑے ھووے گھروں کے نام
میں نے لکھے تو مجھ پر جھنم خرام ہوئی یَاسّرً
کربلا میں کٹے ہووے سَرّوُں کے نام