آرزو سایہ دیوار کی تو در گیا
اک راہ میں عمر بھر کا سفر گیا
داستانِ وبال ٹھہرا ہر لمحہ زیست کا
جسے کے سائے ہوئے وہ شجر گیا
خواب ہو چلیں عہد و وفا کی با تیں
راکھھ ہو کر پھر اعتبار بکھر گیا
دشتِ جاں میں تھی خشک سالی سی
اشکوں کی برسات سے سب نکھر گیا
وہ مثلِ جھونکاِ ہوا تھا خبر نہیں
کہاں سے آیا اور جا نے کدھر گیا