مجھ میں بھی اُڑنے کا امتزاج ہوتا
کاش میں اک پنچھی آزاد ہوتا
میں اُڑتا فضاؤں میں چہکتا ہواؤں میں
خوشی کے نغمیں گاتا مستی کے غوطے لگاتا
دنیا کے ہر غم سے میں آزاد ہوتا
کاش میں اک پنچھی آزاد ہوتا
نہ فکر ہوتا معاش کا نہ غم ہوتا عذاب کا
وادیوں میں بھٹکتا نظاروں میں ٹہلتا
کسی شاخ پر ایک گھونسلا آباد ہوتا
کاش میں اک پنچھی آزاد ہوتا
میں غولوں میں گھومتا سیر دُنیا کی کرتا
پہاڑوں پر اُڑتا ابشاروں میں اُترتا
میرے سنگ میرا دلدار ہوتا
کاش میں اک پنچھی آزاد ہوتا
عشق ہم دونوں کا ہوتا رسم رواج دنیا کا نہ ہوتا
دن پیار میں گزرتا رات دیدار میں گزارتا
اپنی اس دُنیا میں صرف پیار ہوتا
کاش میں اک پنچھی آزاد ہوتا